×
یہ ایک مختصر خطبہ ہے جس میں اسلامی کیلنڈر کے مطابق ہجری سال کے ماہ محرم کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، نیز عاشورا کے روزہ کی فضیلت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جوکہ فضیلت والے مہینہ محرم کی دسویں تاریخ کو رکھا جاتا ہے۔

    موضوع الخطبة :تعظيم شهر محرم، وفضل صوم يوم عاشوراء

    الخطيب : فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله

    لغة الترجمة : الأردو

    المترجم :سيف الرحمن التيمي((@Ghiras_4T

    موضوع:

    ماہ محرم کی تعظیم اور صوم ِ عاشوراء کی فضیلت

    پہلا خطبہ:

    إنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إلـٰه إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.

    (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُون).

    (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبا).

    (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيما).

    حمد وثنا کے بعد!

    سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷐ کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

    اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کاخوف اپنے ذہن ودل میں زندہ رکھو، اس کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو، جان رکھو کہ مخلوق پر اللہ کی ربوبیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے بعض اوقات کا انتخاب فرمایا اور انہیں دیگر اوقات پر عظمت وبرتری عطا فرمائی، ان اوقات میں سے محرم کا مہینہ بھی ہے، یہ ایک مہتم بالشان اور بابرکت مہینہ ہے، ہجری سال کا یہ پہلا مہینہ ہے، یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بار ے میں اللہ تعالی نے فرمایا: (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ)

    ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔

    (تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ) یعنی ان حرمت والے مہینوں میں، کیوں کہ دیگر مہینوں کے بالمقابل ان میں گناہ کی سنگینی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

    فرمان الہی : (تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ) کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:تمام مہینوں میں (اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو)، پھر اللہ نے ان میں سے چار مہینوں کو خاص کیا اور انہیں حرمت والا قرار دیا، ان کی حرمتوں کو باعظمت ٹھہرایا ، ان میں کئے جانے والے گناہ کو زیادہ سنگین بتایا اور ان میں انجام دئے جانے والے نیک اعمال کا اجرو ثواب کئی گنا بڑھا دیا۔انتہی

    فرمان الہی : (تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ) کی تفسر میں قتادۃ فرماتےہیں: حرمت والے مہینوں میں ظلم کرنے کا گناہ دیگر مہینوں کے بالمقابل کہیں زیادہ بڑا اور سنگین ہوتاہے، یہ اور بات ہے کہ ظلم ہر حال میں ایک سنگین جرم ہے، لیکن اللہ تعالی جس چیز کی چاہتا ہے عظمت بڑھادیتا ہے۔

    آپ مزید فرماتےہیں: اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ بندوں کو منتخب فرمایا، فرشتوں میں سے کچھ کو اپنے سفیر کے طور پر اور انسانوں میں سے کچھ کو رسول وپیغمبر کے طور پر منتخب فرمایا، روئے زمین سے مسجدوں کا انتخاب کیا، مہینوں میں سے رمضان اور حرمت والے مہینوں کو چنا، دنوں میں سے جمعہ کے دن کا انتخاب کیا ،راتوں میں سے شب قدر کو منتخب کیا، اس لئے آپ لوگ بھی ان کی تعظیم کیجئے جن کو اللہ نے با عظمت بنایا ہے، کیوں کہ اصحاب ِ فہم وفراست کے نزدیک تمام چیزوں کی عظمت کا معیار وہی ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے اس کی تعظیم کی ہے۔یہ قول اختصار کے ساتھ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر سے نقل کیا گیا ہے۔

    ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ نبی ﷐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : "...سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے"([1])۔

    ماہ محرم کو اس نام سے اس لئے موسوم کیا جاتا ہے کہ وہ حرمت والا مہینہ ہے، اس کی حرمت اور عظمت کی تاکید کے طور پر ۔

    رجب مضر کو اس نام سے اس لئے موسوم کیا جاتا ہے کہ قبیلہ مضر اس مہینہ کو اپنی جگہ سے نہیں پھیرتا تھا، بلکہ اس کے وقت پر ہی اس کا شمار واعتبار کرتا تھا، برخلاف دیگر قبائل عرب کے ، وہ جنگی حالات کے پیش نظر حرمت والے مہینوں کو ان کے حقیقی اوقات سے پھیر دیتے تھے، ان کا یہ عمل النسیء کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    اللہ تعالی نے ان مہینوں کو جس مقام ومرتبہ اور حرمت وعظمت سے سرفراز کیا ہے، اس کا خیال رکھنا چاہئے ، مثال کے طور پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام ٹھہرایاہے اور ان میں معصیت اور گناہ کے کاموں سے تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے۔

    · اے مسلمانو! ماہ محرم میں کثرت سے نفلی روزے رکھنے کی فضیلت ثابت ہے، چنانچہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷐ نے فرمایا: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے محرم کے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے ([2])۔

    ماہِ محرم کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے: (اللہ کا مہینہ محرم) ، جو اس کی عظمت کی دلیل ہے۔

    · اے مومنو! مخلوق پر اللہ کی ربوبیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے کچھ دنوں کو منتخب فرمایا اور ان میں انجام دی جانے والی عبادتوں کو دیگر ایام پر عظمت وبرتری عطا کی، انہی ایام میں سے عاشوراء (دسویں محرم) کا دن بھی ہے، اسلامی کیلنڈر کے حساب سے ہجری سال کے ماہِ محرم کا یہ دسواں دن ہے، اس دن کی عظمت کا ایک پر لطف پس منظر ہے، وہ یہ کہ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی موسی علیہ السلام کو غرق آبی سے بچایا اور فرعون کو اس کی قوم سمیت غرق آب کردیا، تو موسی علیہ السلام نے اس نعمت پر اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دسویں محرم کو روزہ رکھا، اس کے بعد اہل کتاب-یہود ونصاری-نے بھی یہ روزہ رکھنا شروع کردیا، پھر زمانہ جاہلیت کی وہ عرب اقوام بھی یہ روزہ رکھنے لگیں ، جو بت پرست تھیں،اہل کتا ب نہیں، چنانچہ مکہ میں قبیلہ قریش اپنے جاہلی دور میں اس دن کا روزہ رکھا کرتاتھا، پھر جب رسول ﷐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کی وجہ دریافت کی: تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا تم سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا([3])۔

    بلکہ یہود اس دن عید مناتے تھے، اپنی عورتوں کو زیور پہناتے تھے اور ان کو (خوبصورت لباس پہنا کر) سنوارتے تھے اور سنگارتے تھے([4])۔

    عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ : یہود ونصاری بھی عاشوراء کے دن کی تعظیم کیا کرتے تھے([5])۔

    عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے باقی رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے([6])۔

    عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: اسی دن قریش کعبہ کو غلاف پہناتے تھے([7])۔یعنی اس پر کپڑے وغیرہ کا غلاف ڈال کر اس کی تعظیم کا مظہر پیش کرتے تھے۔

    جب اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کیے تو نبی ﷐ نے مسلمانوں کو یہ خبر دیا کہ جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔یعنی عاشورا ء کا روزہ رمضان کے روزو ں کی طرح فرض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مستحب روزہ ہے۔چنانچہ جو شخص یہ روزہ رکھے گا وہ ان شاء اللہ اجر عظیم سے سرفراز ہوگا۔ایک شخص نے نبی ﷐ سے دریافت کیا کہ : آپ کیسے روزہ رکھتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان کے روزے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں، یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں مَیں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، اور اللہ سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ یوم عاشورہ (دس محرم الحرام) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو گا“([8])۔

    وہ تمام صغیرہ گناہ جو انسان سے گزشتہ سال کے اندر سر زد ہوا کرتے ہیں، ان تمام گناہوں کو اللہ تعالی اس دن کے روزہ سے معاف کردیتا ہے، یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے ذریعہ پورے سال کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے، رہی بات کبیرہ گناہوں کی تو سچی توبہ سے ہی یہ گناہ معاف ہوتے ہیں، اللہ تعالی بڑا فضل وکرم والا ہے۔

    · اے مسلمانو! عاشورا کے روزہ کی اسی منزلت و مرتبت کے پیش نظر نبی ﷐ اس روزہ کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائےعاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا([9])۔

    سلف صالحین کی ایک جماعت سفر کے دوران بھی عاشورا ء کا روزہ رکھتی تھی ، تاکہ یہ فضیلت ان سے فوت نہ ہوجائے، ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    سلف کی ایک جماعت دورانِ سفر بھی عاشوراء کا روزہ رکھتی تھی، جیسے ابن عباس، ابو اسحاق السبیعی اور زہری۔زہری کہتے تھے: رمضان (کے فوت شدہ ) روزوں کی قضا دوسرے دنوں میں کی جا سکتی ہے، لیکن عاشوراء کی فضیلت فوت ہوگئی (تو قضا نہیں کی جاسکتی)([10])۔امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے کہ عاشوراء کا روزہ سفر میں رکھا جاسکتا ہے۔ابن رجب رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا([11])۔

    صحابہ کرام اپنے بچوں کو روزہ کا عادی بنانے کے لئے ان سے عاشوراء کا روزہ رکھواتے تھے، چنانچہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم ﷐ نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورا کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا([12])۔

    · اللہ کے بندو! عاشوراء کے روزے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نویں محرم کا بھی روزہ رکھا جائے، اس کی دلیل نبی ﷐ کی یہ حدیث ہے: "اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا“([13])۔یعنی اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا اور مجھے موت نہیں آئی تو دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا، لیکن نبی ﷐ اگلے سال کے عاشوراء سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔

    · اے لوگو! دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان یہودیوں کی مشابہت سے بچ سکیں، کیوں کہ یہود دسویں محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، اس لئے نبی کریم ﷐ کو یہ ناپسند ہوا کہ ان کی مشابہت اختیار کریں، لہذا آپ نے اس مشابہت کو دور کرنے کے لئے دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی رہنمائی فرمائی، یہ شریعت اسلامیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے متبعین اپنی عبادتوں میں دیگر اقوام وملل کے متبعین سے ممتاز ونمایاں ہوتے ہیں۔

    اگر کوئی یہ پوچھے کہ: کیا صرف دسویں محرم کاروزہ رکھنا جائز ہے؟ تو اس کا جواب ہے: ہاں، لیکن افضل یہ ہے کہ اس سے ایک دن قبل بھی روزہ رکھا جائے، یہ نبی ﷐ کی ثابت شدہ سنت ہے: "اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا“۔

    اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے بہرہ وہ فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

    دوسرا خطبہ:

    الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده.

    حمد وصلاۃ کے بعد:

    اے مسلمانو!اللہ تعالی نے شب وروز کو ایک عظیم حکمت کے تحت پیدا کیا ہے، اوروہ ہے عمل، معلوم ہوا کہ اللہ نے دن ورات کو یوں ہی بے کار پیدا نہیں کیا، فرمان باری تعالی ہے: (وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا)

    ترجمہ: اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے واﻻ بنایا۔ اس شخص کی نصیحت کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اراده رکھتا ہو۔

    نیز فرمایا: (الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا)

    ترجمہ : جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے۔

    ترمذی نے روایت کیا ہے،ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“([14])۔

    · اے مومنو! ان دنوں ہم گزشتہ سال کو الوداع کہہ رہے ہیں جس کا ہم نے مشاہدہ کیا، اور ایک نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، مجھے کوئی بتائے کہ ہم نے گزشتہ سال ( کے نامہ اعمال میں) اپنے کون سے اعمال درج کرائے؟ اور نئے سال کے اندر ہم کون سے اعمال کا استقبال کرنے جارہے ہیں؟ سال نہایت تیزی سے گزر رہے ہیں، اسی سال کو دیکھ لیجئے ، ایسے گزر گیا گویا کوئی ایک دن بلکہ ایک گھڑی گزری ہو، اس لئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے، ہم نے اس سال کے اوقات کو جنت کی قربت اور جہنم سے دوری حاصل کرنے کے لئے کس قدر استعمال کیا؟ ہم نے اطاعت الہی میں کتنی چستی وپھرتی دکھائی؟ ہم نے پورے سال میں کتنی نفلی نمازیں ادا کی اور روزے رکھے؟ ہم نے کتنا صدقہ وخیرات کیا؟ کتنا وقت اللہ تعالی کی یاد میں بسر کیا؟ کتنی دفعہ (نماز کے ) اولین وقت میں مسجد گئے؟ کیا ہم گناہوں اور نافرمانیوں سے دامن کش رہے؟ کیا محرمات کو دیکھنے سے ہم نے اپنی نگاہیں پست رکھیں؟غیبت اور باطل باتوں سے اپنی زبان کو روکے رکھا؟ کیا ہم نے اپنے دلوں کو کینہ کپٹ اور بغض وحسد سے پاک کیا؟ کیا ہم نے اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور خادموں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کئے ؟ ہم نے اپنی خواتین کو حجاب، پردہ ، حیاوحشمت کا کتنی بار حکم دیا اور انہیں عریانیت اور اختلاط سے کتنی دفعہ منع کیا؟

    · اے لوگو! ایک سال کے گزرجانے اور دوسرے سال کا آغاز ہونے سے تین چیزیں واجب ہوتی ہیں:

    پہلی: اس بات پر اللہ کا شکر کہ اس نے زندگی میں ایک اور موقع عنایت کیا۔

    دوسری: گزشتہ ماہ وسال کی روشنی میں خود احتسابی۔

    تیسری: باقی ماندہ ایام کے لئے اپنے نفس کی اصلاح اور درستگی۔

    عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:(اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، تم خود اپنا محاسبہ کرلو، اس سے پہلے کہ تمہیں میزان میں ڈالا جائے ، تم خود اپنے آپ کو ناپ تول لو، کیوں کہ کل (قیامت کے دن) تمہارے حساب وکتاب میں اس سے آسانی پیدا ہوگی کہ تم آج خود اپنامحاسبہ کرلو، اور عرضِ اکبر (بڑے حساب وکتاب) کے لئے خود کو مزین اور تیار کرو)([15])۔اے مسلمانو! اپنے شب وروز کو اعمال صالحہ سے معمور کر لواس سے پہلے کہ موت در ِحیات پر دستک دے بیٹھے۔

    • آپ یہ بھی یاد رکھیں-اللہ آپ کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے-کہ اللہ نے آپ کو ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے،اللہ فرماتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)

    ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

    نبی ﷐ نے فرمایا: "جمعہ کا دن تمہارے بہترین دنوں میں سے ہے، لہٰذا اس دن میرے اوپر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں“۔

    · اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔

    · اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل وخوار کر،اور دین اسلام کی حفاظت فرما۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔

    · اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے، اپنے دین کوسربلند کرنے کی توفیق دےاور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔

    · اے اللہ! ہم تیری نعمت کے زوال سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پلٹ جانے سے، تیرے ناگہانی عذاب سے اور تیرے ہر قسم کے غصے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

    · اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے۔

    · اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

    · اے اللہ کے بندو!یقینا اللہ تعالی عدل کا،بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں،ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے۔ وہ خود تمہیں نصیحتیں کررہاہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔اس لئے تم اللہ عظیم کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا،اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاؤ وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا،اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے،تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ اس سے باخبر ہے۔

    از قلم:

    ماجد بن سلیمان الرسی

    محرم ۱۴۴۳ھ

    شہر جبیل-سعودی عرب

    ترجمہ:

    سیف الرحمن تیمی

    binhifzurrahman@gmail.com

    ([1]) اسے بخاری (۳۱۹۷) اور مسلم (۱۶۷۹) نے روایت کیا ہے۔

    ([2]) اسے مسلم ( ۱۱۵۳) نے روایت کیا ہے۔

    ([3]) اسے بخاری (۲۰۰۴) اور مسلم (۱۱۳۰) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔

    ([4]) اسے مسلم (۱۱۳۱) نے روایت کیا ہے، اس باب میں ابو موسی رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث مروی ہے، جسے بخاری (۲۰۰۵) نے روایت کیا ہے۔

    ([5]) اسے مسلم (۱۱۳۴) نے روایت کیا ہے۔

    ([6]) اسے بخاری (۲۰۰۲) اور مسلم (۱۱۲۵) نے روایت کیا ہے، اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث مروی ہے، جسے بخاری (۱۸۹۲) اور مسلم (۱۱۲۶) نے روایت کیا ہے۔

    ([7]) اسے بخاری (۱۵۹۲) نے روایت کیا ہے۔

    ([8]) اسے مسلم (۱۱۶۲) نے ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

    ([9]) اسے بخاری (۲۰۰۶) اور مسلم (۱۱۳۲) نے روایت کیا ہے۔

    ([10]) اسے بیہقی نے "شعب الإیمان" (۳/۳۶۷) میں روایت کیا ہے، طباعت: دار الکتب العلمیۃ

    ([11]) "لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف": ص۱۱۰، تحقیق: یاسین محمد السواس، طباعت ۵، ناشر: دار ابن کثیر-دمشق

    ([12]) اسے بخاری (۱۹۶۰) اور مسلم (۱۱۳۶) نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

    ([13]) اسے مسلم (۱۱۳۴) نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

    ([14]) اسے ترمذی (۲۴۱۷) نے روایت کیا ہے اور کہا کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    ([15]) "مسند الفاروق" (۲/۶۱۸) لابن کثیر، تحقیق: عبد المعطی قلعجی، ناشر: دار الوفاء-مصر، طباعت:۱۴۱۱ھ