×
زیر نظر کتابچہ کو عربی زبان میں شیخ محمد بن احمد باشمیل رحمہ اللہ نے توحید کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کرنے کیلئے سوال وجواب کے حسین اور دلکش پیرائے میں مدلل انداز سے قلم بند کیا ہے جسے فضیلۃ الشیخ /عبد المجید مدنی حفظہ اللہ نے امت کے فائدے کی خا طر اردو قالب میں ڈھا لنے کی کوشش کی ہے.نہایت ہی مفید کتابچہ ہے ضرور فائدہ حاصل کریں.

 توحید ہم کیسے سمجھیں؟

[الأُردية –اُردو Urdu]

 -محمد بن احمد باشمیل- رحمہ اللہ

—™

ترجمہ: عبدالمجید بن عبد الوہاب مدنی

مراجعہ : شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنی

ناشر: دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ، ریاض

 مملکتِ سعودی عرب

 عرضِ مُترجم

بسم اللہ الرّحمن الرحیم

شیخ محمد بن احمد باشمیل رحمہ اﷲ‘اسلامی موضوعات پراپنی مختصر ‘جامع ‘سادہ اور عام فہم کتاب وسنت پر مبنی تحریروں کے لئے عالم عرب کے علمی‘دینی اور دعوتی حلقوں میں خاصے معروف ہیں۔

زیر نظررسالہ بھی عربی زبان میں شیخ موصوف نے تو حید کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے سوال وجواب کے حسین اور دلکش پیرائے میں مدلل انداز سے قلم بند فرمایاہے جسے میں نے امت کے فائدے کی خاطر اردو قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے([1]) ۔

بلا شبہ کسی زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ایک مشکل امر ہے لیکن اجر وثواب کی امید میں یہ ایک کوشش ہے اگر اس میں قارئین کرام کوکسی مقام پرکوئی سقم نظر آئے تو ازراہ خیر خواہی خاکسار کو آگاہ فرمائیں تاکہ اس کی تلافی کی جا سکے کمال صرف اﷲ ہی کے لئے ہے ۔

ترجمہ کتاب کے بارے میں اپنے ان مخلص اور کرم فرما دوستوں کاشکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کے مراجعہ یا اشاعت میں کسی بھی قسم کا حصہ لیا (فجزاہم اللہ احسن الجزاء)

آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو شرف قبولیت عطا فرمائے اس کے فوائد کو عموم ودوام بخشے اور اس کو میرے لئے اور میرے والدین اساتذہ واحباب سب کے لئے سامان آخرت وذریعہ مغفرت بنائے ۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم ،وتب علینا إنک أنت التّواب الرّحیم.

 طالبِ دُعا :

 عبد المجید بن عبد الوہا ب مدنی

 داعی عیون اسلامک سینٹر -سعودی عرب

 موبائل: 0508944036- 00966

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

  مقدمۃ المؤلف

الحمدﷲرب العالمین‘والصلاۃ والسلام علی خاتم الأنبیاء والمرسلین.

حمد وصلاۃ کے بعد : عرض ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تخلیق نیزرسولوں کو مبعوث فقط اس لئے فرمایا کہ سارے کے سارے بندگی صرف اسی کی کریں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾[الذاریات:۵۶]

’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔

آیت کریمہ میں عبادت سے مراد توحید کا اقرار ہے۔

لیکن یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عام طور سے جاہل مسلمان عبادت کا حقیقی معنیٰ اور مفہوم نہیں سمجھتے اور اسی نا دانی کی وجہ سے عبادت کی بعض قسموں کو غیراﷲ کیلئے انجام دے کرشرک اکبر کربیٹھتے ہیں جو اسلام سے ان کی علیحدگی کاسبب بنتاہے۔

اورایسا اس وقت ہوتا ہے جب وہ قبروں میں مدفون انبیاء ‘ اولیاء‘اورصالحین کوعاجزی ‘انکساری کے ساتھ پکارتے ہیں‘اور ان سے دعا اورفریاد کرتے ہیں ‘ان کے نام پرجانور ذبح کرتے ہیں اور ان کے لئے نذر و منت مانتے ہیں اور جس طرح کعبۃاﷲ شریف کاطواف کیا جاتاہے اسی طرح تعظیم و احترام سے ان بزرگوں کی قبروں اور تابوتوں کا طواف کرتے ہیں ،یہی سارے کام توعبا د ت ہیں اور یہی شرک اکبر ہے گر چہ ان کا نام بدل کر عبادت کے بجائے تبرک اور وسیلہ کا نام ہی کیوں نہ دے دیا ہو ۔

ان اعمال کو انجام دینے والے اگر جاہل عوام اور عبادت کے حقیقی معنیٰ اور مفہوم سے نا واقف لوگ ہوں تو اپنی جہالت کی وجہ سے کسی حد تک معذور ہو سکتے ہیں لیکن ان عا لموں کا عذر اور بہانہ کیا ہوگا جو عبادت کے حقیقی معنیٰ اور مفہوم سے باخبر ہیں؟ اور جو پورے وثوق کے ساتھ اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ جاہل عوام جن شرکیہ اعمال وافعال اور افکار و خیالات کو دین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں وہ شرک اکبر ہے اور اس کا مرتکب اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس کے با وجود وہ فتوے صادر کرتے رہتے ہیں کہ اس قسم کے سبھی اعمال جائز وسیلہ ہیں اور انبیاء‘ اولیاء‘ صالحین اور بزرگان دین سے محبت اور ان سے لگاؤکا مظہرہیں ؟؟۰

مزید برآں قدوہ اور نمونہ سمجھے جانے والے یہ علماء اپنے معتقدین اور پیرو کاروں میں شرک کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے بالخصوص میلادوں اور سالانہ عرسوں وغیرہ جیسے من گھڑت مواقع پر خود بھی شرکیہ کام انجام دیتے ہیں ۔

کیا یہ علماء جو حق کو چھپاتے اور کفر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں انہیں کچھ بھی اﷲ کا خوف نہیں ہے ؟ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ چند ٹکوں یا جھوٹی عزت و خود نمائی اور داد ودہش کی خاطر خود بھی ان جرائم کا رتکاب کرتے ہیں اور عوام کو بھی لت پت کئے رہتے ہیں۔ بلا شبہ اس قسم کے علماء خودگمراہ ہیں اور وہ دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کر نے والے ہیں اس قسم کے علماء کو اﷲ کا خوف کھاناچاہئے اور چندسکّو ں یا معمولی منصب کی لالچ میں آکر اس قسم کے غیرشرعی اعمال اور رسومات کو رواج دینے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ چیزیں فانی ہیں اور یہیں پر ختم ہو جائیں گی ۔

محترم قارئین: چونکہ میں ان چند افراد میں سے ایک ہوں جو عالم اسلام کے مختلف کونوں میں بھیانک شکل میں شرک اکبر کے پھیلنے اور منتشر ہونے کی خوفناک حقیقت اور اسباب سے آگاہ ہیں بنا بریں میں نے اس سلسلے میں اﷲ سے استخار ہ کیا اوراس پر توکل کرتے ہوئے [ توحیدکو ہم کیسے سمجھیں] نامی اس رسالہ کی تالیف کی اﷲ تبارک وتعالیٰ سے اس بات کی امیدکرتے ہوئے کہ وہ ناچیز کی اس کوشش کو قبول فرما لے ۔ اور اس کتابچہ کو اپنے ان بندوں کے لئے نفع بخش بنا دے جوجہالت اور لاعلمی یا پھرہٹ دھر می کی وجہ سے راہ حق سے دور جا پڑے ہیں۔

عقیدت کیش کی جانب سے ان لوگوں کو شرک کی تاریکیوں سے نکال کر نور توحید کی طرف لانے کی یہ ایک ادنیٰ کوشش ہے جنھیں اﷲ اس سے نکالنا چاہے وہ کتنا اچھا کارساز اور کیا ہی بہترمدد گار ہے ۔

عنقریب اسلام کا کڑاایک ایک کر کے ٹوٹ جائے گا جب اسلام میں ایسا شخص جنم لے گا جو جاہلیت کی حقیقت کو نہیں پہچانے گا ۔ (عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ)

وہ کافی حد تک دین دا ر شخص تھا ‘ انتہائی پروقار اور نرم خوہونے کے باوجود حد درجہ صاف گو اور مخلص بھی تھا ۔میں ہمیشہ اس کی باتوں سے متفق رہتا اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتارہتاسوائے ایک پہلو کے اور یہ تھا مردوں کے وسیلے اختیار کرنا‘ انہیں پکارنا اور اﷲ کو چھوڑ کر ان سے فریاد کرنااور ان کے لئے جانور ذبح کر نا اور نذر ماننا ۔

یہ مسائل ہم دونوں کے درمیان تکرار کا سبب اوربحث ومباحثہ کی وجہ ہوا کرتے تھے ۔ دوران گفتگو اور نقاش اس کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتاکہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح (علماء سوء) ان ساری چیزوں کو اگر مستحب نہیں تو کم ازکم جائز ضرور سمجھتا ہے ۔

ایک دن وہ مجھ سے کہنے لگا کہ : آپ توجانتے ہی ہیں کہ میں اﷲ کے سوا کسی اور کو نہیں پکار تااورنہ ہی اﷲ تک پہونچنے کے لئے اپنے اچھے اعمال کے علاوہ کسی اور چیزکا وسیلہ طلب کرتا ۔ میں نے اس سے جوابا عرض کیا جی ہاں: جناب مجھے معلوم ہے اوراسی ناطے تو آپ کے سلسلے میں میرے یہاں ایک کسک پیدا ہوئی اور مجھے آپ کے اندر خیر کے آثار دکھائی دینے لگے کیونکہ آپ جیسے دانشمند آدمی کے لئے لازم اور ضروری ہے کہ اس طرح کی حماقتوں کے برے نتائج آپ کی نظروں سے اوجھل نہ رہیں جن کا ارتکاب قبروں اور آستانوں کی تجارت کرنے والے مجاور اوران کی بھینٹ چڑھنے والے مغفل لوگ کرتے ہیں ۔

 کیا اﷲ کے سوا اولیاء کو پکارنا کفر ہے ؟

اس نے کہا : آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ا س کے باوجود جیسا کہ میں نے بارہا آپ سے عرض کیا ہے میں اب تک اس بات کو ہضم نہیں کرسکا اور نہ ہی یہ بات اب تک میری حلق سے نیچے اتر رہی ہے کہ مر ے ہوئے لوگوں کو پکارنا ان سے فریاد کرنا خاص طور پرانبیاء‘اولیاء اوربزرگان دین سے استغاثہ یا فریا د کرنا ایساشرک ہے کہ اس کا کرنے والا دین اسلام سے خارج ہو جاتاہے جبکہ مرے ہوئے لوگوں کو پکارنے والے اور وسیلہ بنانے والے ان کو نفع ونقصان ‘ تخلیق وایجاد اور موت و زندگی وغیرہ میں سے کسی ایسی چیز پر قادر نہیں مانتے جسکی طاقت صرف اﷲ کے پاس ہے۔یوں تو ہم دونوں کے درمیان متعدد بار اس بارے میں علمی مناقشہ اور تبادلہ خیال تو ضرور ہوا لیکن انتہائی مختصر اور سر سری ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو قانع نہ کیا جا سکا ۔

ایک با راس نے مجھ سے کہا :کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے کہ ہم دونوں موضوع کو تحقیقی شکل دیں اور اس کے ہر پہلو پر کھل کرتفصیلی گفتگو کریں تاکہ کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔ ہاں مگراس شرط کے ساتھ کہ دوران گفتگو ہم دونوں اپنے جذبات و میلانات پر قابو رکھیں گے اور اس سے کنا رہ کش رہیں گے اس لئے کہ اکثر لوگ اکڑاور نفس پسندی ہی کی وجہ سے سیدھے راستہ سے بھٹک جاتے ہیں ؟

میں نے اسے جواب دیا کہ اﷲ کی قسم اسی لمحہ کی تو میں نے بار بار تمنا کی تھی میری تو شدید خواہش ہے کہ میں آپ کے سامنے ان حقائق کو واشگاف کروں جن کے بارے میں آپ متردد اور حیران دکھائی دیتے ہیں، میں تو آپ کے ساتھ مسئلہ کی تہ میں جاکربحث اور مناقشہ کو اپنے لئے سعادت اور خوش نصیبی سمجھوں گا۔

اس نے کہابہت خوب اورپھر یوں گویا ہوا :کہ صراحت کے سا تھ آپ یہ بتائیں کہ بعینہ اس مسئلہ کے تعلق سے آپ کا اٹل موقف کیا ہے ؟ اور وہ واضح نصوص اور قطعی دلائل کیا ہیں جن کی بنیاد پر آپ ا یسے لوگوں کو کافر اور دین وملت سے خارج قرار دیتے ہیں جوُ مردو ں اور خاص طور پر انبیاء اور صالحین یا بزر گان دین وغیرہ سے دعا اور پکار کو جائز اور درست سمجھتے ہیں یا ان کے نام کی نذر اور منت مانتے اور جانور وغیرہ ذبح کرتے ہیں۔؟؟

میں نے جوابا عرض کیا کہ اس سلسلے میں ہمارا موقف کوئی نیا نہیں ہے اور نہ ہی یہ میرا اپنا گھڑا ہوا نظریہ ہے بلکہ اﷲ کی کتاب کے عین موافق ہے اور ہمارا ہرحکم اور فیصلہ بھی اسی کتاب حکیم کے تابع ہے جو کہ رہتی دنیا تک باقی رہنے والی اور لاریب کتاب ہے جس کے نا آگے سے باطل کا گزر ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ۔گویا ان قبوریوں کے بارے میں کفر یا شرک کا فیصلہ ہماری من مانی نہیں بلکہ یہ فیصلہ اﷲ کی کتاب کا ہے ۔

وہ پہلے ہی کی طرح وقار کو برقرار رکھتے ہوئے مجھ سے یوں گویا ہو ا کہ اس گول مال بات کی تکر ار کا کوئی فائدہ نہیں انہیں تو ہم بارہا آپ سے سن چکے ہیں اوران کی حیثیت میری نگاہ میں مجرد ایک ایسے دعویٰ کی ہے جس کے پیچھے کوئی ثبوت نہ ہو اور یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ دعویٰ بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہوتا ،ہم تو آپ سے اس سلسلے میں واضح اور صریح دلیلوں کو سننا چاہتے ہیں جوسننے والے کو قانع کر دیں؟!

موضوع بڑا ہی اہم اورپیچیدہ ہے ‘اور اس سلسلے میں جلد بازی اور بغیر کسی چھان بین کے ایک مسلمان کی تکفیر انتہائی غیر منصفانہ قدم ہے اور یاد رہے کہ آپ لوگوں کی اسی روش نے مسلم قوم کے درمیان انتہائی سیاہ اور تاریک فتنہ کو جنم دیا ہے جس کے اندریہ امت روز بروز ڈوبتی جا رہی ہے اور اس سے چھٹکارا پانا آج تک ممکن نہ ہو سکا ۔

 قبر پرستوں کی حقیقت سے چشم پوشی :

میں نے اس سے جوابا عرض کیا کہ در اصل آپ لوگ بڑے بڑے گمراہ کن پرو پیگنڈوں سے متأثر ہیں اور اسی چیز نے آپ لوگوں کی صحیح سوچ اور فکر کی صلاحیتوں پر قد غن لگا دیا ہے جس کی وجہ سے آپ لوگ ہمارے بارے میں نہ جانے کن کن باطل خیالات اور بد گمانیوں کے شکار ہیں ۔

بہر حال آپ لوگ اپنی سوچ میں آزادہیں جو چاہیں اور جس طرح چاہیں سوچیں چنانچہ ہماری دعوتی جد وجہد جو کیا ہے یا کر رہے ہیں اس کو فتنہ کا نام دیں یا اسے لاپروائی سے تعبیر کریں یا جلد بازی کہیںیا کسی اور نام سے پکاریں جو آپ کو ہمارے لئے سب سے زیادہ پسند آئے ،مگر یاد رہے کہ آپ لوگوں کی ان تہمتوں سے اس واضح حقیقت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ہم تو کتاب وسنت کے پیرو کار ہیں ہم نے اﷲ کی کتا ب کو اس کے حکم کے عین مطابق سمجھنے اور غور وفکر کی ٹھانی ہے لہٰذا ہم اس کے معانی اور مفہوم کو سمجھنے میں فکر ریزی اسی طرز پرکرتے ہیں جیسا کہ اﷲ نے حکم دے رکھا ہے ۔

لہٰذا ہم نے دیکھا کہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے مشرکوں کے جو اوصاف اور صفات بیان کئے ہیں بعینہ وہی اوصاف اور علامات آج کے قبر پرستوں پر فٹ ہوتے ہیں جو کہ مر دوں سے فریاد کرتے ہیں ان سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں اور مصیبت اور پریشانی کی گھڑی میں ان سے گڑگڑاتے ہیں‘ نیاز اور قربانی جو اﷲ کے لئے خاص ہے اس کو مرے ہوئے لوگوں کے نام پر پیش کرکے اﷲ کے ساتھ شرک جیسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو ہم نے امت مسلمہ کو معاملہ کی خطرناکی سے آگاہ کرنے اور ان کے لئے حقائق کو بیان کرنے میں ذرا بھی پس وپیش نہ کیا اور بغیر کسی سے خوف کھائے ہوئے ہمارے علم نے ہمیں جس نتیجہ تک پہونچایا تھا دو ٹوک انداز میں اس کا اعلان کردیاتاکہ لوگ معاملہ کی سنگینی سے آگاہ ہو سکیں۔ اور اسے مکابرین کی پیٹھوں پر دے مارا قطعا اس کی کوئی پرواہ کئے بغیر کہ لوگ ہم سے نا راض ہوں گے یا خوش کیونکہ لوگوں کی رضا مندی یا ناراضگی حق اور باطل کے پہچاننے کا معیار نہ کبھی رہا ہے اور نہ ہوگا ۔

 مشرکوں اور قبر پرستوں کاشبہ اور اس کا رد:

رہی با ت ہماری ان باتوں پر دلیل کی جو ہم کہتے ہیں ا ور جسے اس مسئلہ میں ہم اﷲ سے تقرب کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں تو اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تفصیلات پیش خدمت ہیں جسے بغور سماعت فرمائیں:

۱۔ تمہارایہ خیال ہے کہ مردوں کو پکار نا یا ان سے فریا د کرناان کے نام کی منت مان کر اور جانور ذبح کرکے قرب حاصل کرنا یہ سارے کام محض اس لئے انجام دئیے جاتے ہیں تا کہ یہ ہمارے لئے اﷲ کی جناب میں سفارشی اور واسطے بن جائیں یہ سارے کے سارے کام تمہاری رائے کے مطابق کفر اور شرک کے دائرے میں نہیں آتے کیونکہ ان بزرگوں کے بارے میں اس قسم کا اعتقاد رکھنے والوں کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ لوگ از خود اپنے لئے کسی نفع یا نقصان کے مالک ہیں انکا تو اﷲ کی ذات پرکامل ایمان ہوتا ہے کہ وہی ان کا حقیقی پالنہار ہے اس کے علاوہ نہ تو کوئی خالق ہے اور نہ مالک اور نہ ہی روزی رساں اور نہ ہی موت وزندگی بخشنے والا ان سب چیزوں کا اختیار تو صرف اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔

لیکن امر واقع یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ بالکل باطل نظریہ ہے اور اس قسم کی کوئی بھی گنجائش فساد کا سبب اور اسلام کے مسلمہ اصول کے مکمل خلاف ہے درج ذیل نکات سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی ۔ انشاء اﷲ تعالیٰ

 انبیاء کا اپنے زمانہ کے مشرکین سے ٹکراؤ کی حقیقت:

انبیاء بالخصوص ہمارے نبی محمد ﷺ کا اپنے زمانہ کے مشرکین سے اختلاف کی اصل وجہ کیاتھی؟ اس حقیقت کا سراغ لگانے و الا بآسانی اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ اس کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ وہ لوگ سرے ہی سے اﷲ کے وجود کے منکر تھے یاان کا اﷲکی ذات پر کامل ایمان نہیں تھا یا وہ اﷲ جل شأنہ کے ہاتھ میں دنیا جہان کی بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اس کا سبب ان کا یہ اعتقاد تھا کہ جن معبودوں کو وہ اﷲ کے علاوہ شدائد اور مشکلات میں پکا رتے تھے وہ ازخود کسی کو نفع پہونچانے یا کسی آئی ہوئی مصیبت اور پریشانی کو ٹالنے میں اﷲ کے شریک ہیں بلکہ یہ ساری باتیں تو ان میں سے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں گزریں اور نہ ہی ان میں سے کسی نے قطعا اس طرح کا کوئی عقیدہ رکھا۔

مشرکین کا اﷲ کی ذات پر ایمان :

اﷲ کے وجود پر مشرکین کا ایمان پختہ تھا وہ توحید ربوبیت کے پوری طرح قائل تھے ان کے یہاں یہ تصور اور اعتقاد موجود تھا کہ اﷲ ہی ان کا رب ہے اور وہی سارے جہان کا پالنہارہے او ر حن معبودوں یا نبیوں کو وہ اﷲ کوچھوڑ کر پکارتے ہیں وہ سب کے سب اﷲکے بعض مخلوق اور اس کے عاجز بندے ہیں جو ازخود کسی نفع اور ضرر کے مالک نہیں ہیں ‘ نفع اور نقصان ‘ موت اور زندگی صرف اور صرف اﷲ تبارک وتعالی کے اختیار اور بس میں ہے کسی بھی مخلوق کا ان معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

یہ تھا وہ ایمان اور عقیدہ جو زمانہ قدیم کے مشرکوں کا اپنے رب کے بارے میں تھا، وہ توحید ربوبیت کو اس طور پر تسلیم کرتے تھے کہ آج کے دور کے اولیاء پرست قبوریوں کی تو حید گئی گزری نکلی ، آج کے قبر پرست اولیاء کے بندے ہیں جو قبرمیں آرام فرما اپنے مردہ اولیاء کی خدمت میں پریشانی کی گھڑی میں روتے ،گڑ گڑاتے ‘ مدد مانگتے، فریاد کرتے حاضر ہوتے ہیں برعکس پہلے کے مشرکوں کے کہ وہ لوگ سکھ میں چین میں آرام میں اﷲ کے ساتھ بتوں اور اسٹیچووں کی شکل میں موجود اولیاء میں سے اپنے معبودوں کو بھی پکارتے تھے لیکن جب ان پر کوئی تنگی،پریشانی ،سخت قسم کی مصیبت آتی تھی تووہ صرف اور صرف اﷲ وحدہ لاشریک کی طرف مڑتے تھے اور بتوں کو بھول کر اﷲ کو پکارتے تھے۔

یہ ساری باتیں سن کر میرا ساتھی تلملا اٹھا اور بظاہراحتجاج کرتے ہوئے عجیب وغریب انداز میں گویا ہوا:تم عجیب وغریب بات کر رہے ہو ایسا نہیں ہے ‘ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟

 ابو جھل اور ابو لہب کا توحید ربوبیت کے سلسلے میں عقیدہ:

ابو جہل اور ابو لہب اور اس کے پیرو کار دیگر مشرکین کا بھی اﷲ کی ذات پر ایمان تھا وہ اﷲ کی ربوبیت میں صد فیصد اس کی توحید کے قائل تھے وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی کو خالق‘ رازق ‘ نفع اور نقصان کا مالک‘ مارنے اور جلانے والا تسلیم کرتے تھے ان میں سے کسی بھی چیز میں وہ اﷲ کے ساتھ غیر اﷲ کو ذرہ برابر بھی شریک نہیں کرتے تھے !

انتہائی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ابو جہل اور ابو لہب موجودہ دور کے ان مسلمانو ں سے ازروئے ایمان اور توحید کے پختہ اور خالص نکلے جو اولیاء اور صالحین کی ذات کا وسیلہ پکڑتے ہیں اور ان کو اﷲ کے یہاں سفارشی سمجھتے ہیں جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ابو جہل اور ابو لہب کا ایمان اس شخص کے ایمان سے پختہ ہو جو ’’لاالٰہ الا اﷲمحمد رسول اﷲ ‘‘ کاقائل ہو اس قدر واضح انداز میں اتنی خطر ناک با ت کہنے کی جرأت کیو ں کر ر ہے ہیں آپ لوگوں کی انہی اور اسی قسم کی دیگر تشدد آمیزباتوں ہی نے تو دنیا کے لاکھوں مسلمانوں کو آپ کے خلاف نفرت پر اکسایا ہے!!

میں نے ا س سے جوابا عرض کیا اس میں تمہیں تعجب اور حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جسے عنقریب آپ بھی جان لیں گے اور جان ہی نہیں بلکہ آپ بھی ہماری انہی باتوں کے معترف ہو جائیں گے ان شاء اﷲ تعالیٰ۔

 جب قرآن وسنت کے واضح دلائل آپ کے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور حق پوری طرح واضح ہو جائے گا اس وقت آپ کی تمام پر فریب دلیلوں کی قلعی بھی کھل جائے گی اور آپ کے ذہن ودماغ میں جو مختلف قسم کے شبہات ہیں وہ بھی زائل ہو جائیں گے اور آپ کا ذہن بالکل صاف ہو جائے گا ۔

 مشرکوں کی توحیداور اﷲ کی ذات پر ان کے ایمان لانے کی دلیل:

اس نے کہا دوست دلیل کدھر ہے ؟ آپ کی ان مزعومہ باتوں کی دلیل کیا ہے ؟ اور اگر آپ کی باتیں صحیح اور مبنی بر حقیقت ہیں کہ پہلے کے مشرکین اﷲ پر اسی طرح کا ایمان رکھتے تھے تو پھر ہمیں یہ بتائیں کہ وہ کون سا شرک تھا جس کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی کتاب قرآن میں مشرک قرار دیا اور اس کے سبب جہنم کے اندر ان کے لئے سرمدیت (ہمیشگی)مقدر فرمائی اور ان کے جان ومال کو مسلمانوں کے لئے حلال فرمایااور اپنے نبی محمد ﷺ کو حکم فرمایا کہ وہ تلوار اور نیزوں سے لیس ہو کر ان سے قتال وجہاد کریں ۔

میں نے اس سے جوابا عرض کیا کہ اب آپ ہی بتائیے آخر۰۰ ۰۰دلیل تو اسی کتاب میں موجود ہے جس کو اﷲ نے بقائے دوام عطا کیا ہے جس کی تلاوت بھی باعث عبادت ہے اور جسے آپ ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں آپ جیسی رائے رکھنے والے کروڑوں مسلمان صبح وشام تبرک کے طور پر تلاوت کرتے ہیں مگر حقائق کی کھوج نہ ہونے کی وجہ سے سمجھتے نہیں ۔

 مشرکین کا اس بات کا اقرار کہ تنہا اﷲ ہی زندگی بخشنے والا‘ روزی رساں ‘موت اور زندگی دینے والا ہے :

قرآن حکیم میں اﷲ تبار ک وتعالیٰ نے زور دے کر اس بات کو بیان کیا ہے کہ پہلے کے مشرکین اﷲ تبارک وتعالیٰ کو زندگی بخشنے والا ،روزی رساں،موت اور زندگی دینے والا نفع اور نقصان کا مالک سمجھتے تھے جیسا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے ان مشرکوں کے حق میں فرمایا ہے : ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ [العنکبوت:۶۱]

’’اگر ان سے آپ دریافت کریں کہ زمین اور آسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ: اﷲ تعالیٰ،تووہ پھر کدھرالٹے جا رہے ہیں؟‘‘۔

ایک اور جگہ فرمایا :﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ [العنکبوت: ۶۳]

’’اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا ؟ تو یقیناًان کا جواب یہی ہوگا اﷲ تعالیٰ نے آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اﷲ ہی کے لئے سزا وار ہے بلکہ ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ‘‘۔

 سورۃ مومنون میں یوں بیان فرمایا :

﴿قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ﴾ [المؤمنون ۸۴-۸۹ ]

’’پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں ؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو ؟ فورا جواب دیں گے کہ اﷲ کی ‘ کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے ۔ دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور با عظمت عرش کا رب کون ہے ؟ وہ لوگ جواب دیں گے کہ اﷲ ہی ہے ۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتلادو ؟ یہی جوابدیں گے کہ ا ﷲ ہی ہے کہہ دیجئے پھرتم کدہر سے جادو کر دئے جاتے ہو؟‘‘۔

﴿قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾ [یونس: ۳۱]

’’آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہونچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ اﷲ تو ان سے کہئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ‘‘۔

جناب والا : مذکورہ واضح آیتیں جس میں کسی جھگڑے کی گنجائش نہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل ہیں کہ زمانہ قدیم کے مشرکین توحید ربوبیت کے قائل تھے وہ سرے سے اﷲ کے وجود کے منکر نہیں تھے اور نہ ہی وہ اس بات کا عقیدہ رکھتے تھے کہ اﷲ کے ملک میں یا اس کے اختیا ر اور تصرف میں کوئی اس کاشریک اور ساجھی ہے وہ صد فیصد اﷲ کی ربوبیت میں اس کی توحید کے قائل تھے ۔

مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ مشرکین اپنے اولیاء کو پکارتے وقت ان کے بارے میں یہ اعتقاد قطعا نہیں رکھتے تھے کہ وہ انہیں زندگی سے نواز دیں گے یا موت سے چھٹکارا دلا دیں گے یا ان کے لئے بارش نا زل کر دیں گے۔

اسی طرح اپنے ان معبودوں سے جنہیں انہوں نے اولیاء بنا رکھا تھاان سے تقرب حاصل کرنے میں ان کا اس قسم کا کوئی اعتقاد ان کے بارے میں نہیں تھا کہ وہ کاتب نیک اور بد ہیں کیونکہ ان کا اس بات پر بڑا پختہ ایمان تھا کہ اس قسم کی ساری چیزوں کا اختیار اﷲ رب العالمین کو ہے جس کے ہاتھ میں سارے جہان کی بادشاہت ہے ،جیسا کہ ان آیات سے ثابت ہوا۔

لہٰذااس دنداں شکن دلیل کی روشنی میں تمہارے وہ سارے کمزور اور بے بنیاد شرط اور معیار واضح انداز میں باطل ہو جاتے ہیں کہ غیر اﷲ کو پکارنے والا صرف اسی صورت میں مشرک قرار پائے گا جب کہ پکارنے والے کا ان کے بارے میں یہ اعتقاد ہو کہ وہ بھی اﷲ کی طرح نفع اور نقصان کے مالک ہیں ۔ اور اگر تمہاری یہ شرط اور تمہارا یہ دعویٰ اسلام کی نظر میں صحیح ہوتا تو پھر اﷲ تعالیٰ ابو جہل ابو لہب اور ان کی جماعت کے ساتھیوں کو مشرک قرار نہیں دیتاکیونکہ تمہاری لگائی ہو ئی یہ شرطیں ان کے یہاں بھی پائی جاتی تھیں کیونکہ اﷲ کے علاوہ جن زندہ یا مردہ ہستیوں کو وہ پکارتے تھے ان ہستیوں کے بارے میں قطعا ان کا یہ ا عتقاد نہیں تھا کہ وہ بھی اﷲ کی طرح نفع اور نقصان کے مالک ہیں جیسا کہ گزشتہ آیات میں اس بات کی صراحت موجود ہے ۔

 زمانہ قدیم کے مشرکوں کا ایمان آج کے مشرکین کے ایمان سے زیادہ پختہ تھا :

ہمارے اس دعوے کی دلیل بھی اسی نسخہ کیمیا اور کتاب ہدایت میں موجود ہے جس کی روشنی کبھی ماند پڑنے والی نہیں اور یہ ایسا گنجینہ گرا ں مایہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے ۔

اﷲ تعا لیٰ نے زمانہ قدیم کے مشرکوں کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾ [العنکبوت:۶۵]

’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہو تے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ہی کوپکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں‘‘۔

 سورۃ اسراء میں فرمایا:

﴿وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا﴾ [الاسراء:۶۷]

’’اور سمندروں میں مصیبت پہونچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اﷲ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہواور انسان بڑا ہی نا شکرا ہے‘‘ ۔

 سورہ انعام میں فرمایا:

﴿قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴾ [الأنعام:۶۳]

’’آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے تم اس کو پکارتے ہو گڑ گڑ ا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اﷲ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے ‘ تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو‘‘ ۔

ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے کے مشرکین کو سمندری سفرکے دوران جب بھنور یا طوفان کا سامنا ہوتا یا وہ کسی بڑی مصیبت سے گھر جاتے تو اپنے جھوٹے معبودوں اور ولیوں کو بھول جاتے اور انہیں ٹھکرا کر رب حقیقی کی طرف پلٹ جاتے دامن امید اسی کے سامنے پھیلانے لگتے ا ور پکار بھی اسی کی لگانے لگتے تھے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اﷲ کو چھوڑ کر جن ولیوں بزرگوں یا جس کسی کو بھی وہ غیراﷲ میں سے پکارتے ہیں وہ سب کے سب اس کے با لمقابل ہیچ اور کمتر ہیں اس آفت کی گھڑی میں وہ نہ کسی قسم کی ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے کسی کام آسکتے ہیں ان کا تو اس با ت پر بھی یقین کامل تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ ان کی پکار بھی نہیں سن سکتے چہ جائیکہ انکی پکار کا کوئی جواب دے سکیں۔ اسی لئے اس فیصلہ کن گھڑی میں ان کی نگاہ بصیرت کے سامنے دھوکے اور مغا لطہ کی ساری تہیں کھل جاتیں اور یہ روشن حقیقت کھل کر ان کے سامنے آ جاتی کہ اﷲ کے علاوہ اس کے بندوں میں سے کوئی خواہ وہ کتنے ہی اونچے مقام اور مرتبہ کو کیوں نہ پہونچ جائے لیکن وہ اس بات کا اہل کبھی نہیں بن سکتا کہ اس طرح کے نازک لمحات میں طلب نجات کے لئے ان سے فریاد کی جاسکے اور وہ لوگوں کی فریاد کو سن بھی سکے ۔

گزشتہ زمانہ کے مشرکین آفت کی گھڑی میں اپنے رب کی کیسے پناہ پکڑتے تھے اور اپنے معبودوں کو کیسے بھول جاتے تھے؟

مذکورہ اسباب کی بنا پرگزشتہ زمانہ کے مشرکین آفت کی گھڑی میں صرف اکیلے اﷲ کی طرف پلٹتے تھے،خالص اسی کی عبادت کرنے لگتے تھے، دعا ،فریاد،پکاراور گریہ وزاری اسی سے کرتے تھے، مدد کی بھیک اسی سے مانگتے تھے اور ان بزرگوں یا ولیوں کو بھول جاتے تھے جن کو انہوں نے خوشی کے ایام میں اﷲ کے علاوہ معبود بنا رکھا تھا کیونکہ ان کا اس بات پر بڑا پختہ ایمان تھا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہی اکیلا بچانے کی طاقت وقوت رکھتا ہے انہیں سمندر میں ڈوبنے سے ، قرآنی شہادت کے مطابق یہ مشرکین خطرات کی جگہوں میں اخلاص کے ساتھ صرف ایک اﷲ کوپکارتے تھے لیکن جیسے ہی وہ خشکی پر پہونچتے اور مشکل کی یہ گھڑی ان سے دور ہو جاتی وہ اپنی سابقہ روش کی طرف جو اپنے باپ دادا سے ورثہ میں پایا تھا کی طرف پلٹ جاتے اور اﷲ کے ساتھ دعا ‘قربانی اورنذر ونیازوغیرہ جیسی عبادتوں میں شرک کرنے لگتے یہی وہ غلطی تھی جس پر اﷲ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کی اور اسی وجہ سے انہیں اپنے اس قول میں مشرک قرار دیا :

﴿فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾[العنكبوت:65]

’’جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں‘‘ ۔

یہ تھا پہلے کے مشرکین کا حال اﷲ کے لئے دین کو خالص کر لینے میں اور دعا کے ذریعہ اس کی طرف یکسو ہو جانے میں ناگہانی مصائب اور پرخطر جگہوں میں۔

آج کے مشرکین پریشانی کی گھڑی میں کس طرح اﷲ کو چھوڑ کر اپنے اولیاء کی پناہ پکڑتے ہیں ؟

مگر آج کے قبر پرست مشرکوں کا حال گزشتہ زمانہ کے مشرکوں سے بالکل برعکس ہے کیونکہ یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو صرف امن وامان اور خوشحالی کے وقت ہی یاد کرتے ہیں اور ان پر جب کوئی سخت مشکل کی گھڑی آتی ہے یا نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے یا ان کی کوئی خواہش دم ٹورنے لگتی ہے تو وہ ایسے موقع پر اﷲ کو بھلا کر ولیوں کو پکار نے لگتے ہیں اور انہیں اپنامعبود بنا لیتے ہیں اور پھرانتہائی خشوع اور خضوع کے ساتھ ان سے دعا اور فریاد میں لگ جاتے ہیں اور ان سے مدد کی امیدیں لگا کر نذر ونیاز اور ان کے نام پر جانور ذبح کرنے لگتے ہیں ۔بدوی ‘ جیلانی ‘ رفاعی‘ تیجانی ‘ عید روس ‘ ابن عیسیٰ ا ور ان کے علاوہ بہتوں کو ولی سمجھ کر ان کے ناموں کا مالا پرسوز آواز میں ایسے ہی سخت موقعوں پرجپاجاتا ہے ۔

چنانچہ ان قبر پرستوں کا حال یہ ہے کہ اگر ان کو سمندر ی سفر کے دوران کوئی خطرہ در پیش ہوتاہے تویہ اﷲ کو بھول جاتے ہیں اور ولیوں کو یاد کر نے میں لگ جا تے ہیں ان سے گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے ہیں انتہائی انکساری اور ذلت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مدد کی بھیک مانگتے ہیں: ’’ اے بدوی ہماری مدد کیجؤ‘‘ ’’ اے جیلانی ہماری مدد کیجؤ‘‘ ’’ اے ر فاعی ہماری مدد کیجؤ‘‘ ان کی بے وقوفی قابل دید ہوتی ہے کیونکہ یہ ان سے اس انداز سے سر گوشیاں کر رہے ہوتے ہیں جیسے وہ ان کی جناب میں مو جودہوں ان کے علاوہ لوگ بھی ہیں جن کا نام لے لے کر دعا و منا جات اور سر گوشی کرتے ہوئے انہیں ایسے دیکھا جا سکتا ہے ساتھ ہی ا گر آپ اس با ت کا بھی مشاہدہ کر لیں کہ وہ بھنور میں پھسنے کے وقت گھبراہٹ اور خوف کے مارے قبروالوں کے لئے نذر ماننےمیں کس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور نجات مل پانے کی صورت میں ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانے کا عہد باندھتے ہیں تو آپ کو بخوبی شرک کی حقارت اور کفر کی خست و درماندگی کا اندازہ ہو جا ئے گا جس نے شرف انسانیت کو غبار آلود اور رسوا کر ڈالا ہے اوراس طرح ایک عقل مند انسان شرک کے دلدل میں پھسنے کے بعد جانو ر سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے ۔

اور اس سے زیادہ نیچ پن اور حقارت وخست کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک انسان اپنے اس معبود حقیقی سے جو اس کا خالق ‘رازق اور پالنہار ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ ہے سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اس سے عاجزی اور فریاد کرنے کے بجائے قبر میں مدفون ان بوسیدہ ہڈیوں کا رخ کرے جو اس قدربے بس ہیں کہ وہ ان کیڑوں اور مکوڑوں کے حملوں کو بھی نہیں روک سکتے جو ان کی ہڈیوں کے اطراف سے گوشت چٹ کر جاتے ہیں ۔ ایسی چیزوں سے مدد اور نصرت کی بھیک مانگنا یا ڈوبنے سے نجات دلانے کی امیدیں وابستہ کرناانتہائی حیرت اور نا دانی کی بات ہے ۔ سچ فرمایا ہے اﷲتعالیٰ نے قرآن حکیم میں:﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ﴾ [الاحقاف : ۵]

’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا ؟جو اﷲ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں ‘‘۔

مجھے خود کئی بار ایسی حماقت خیز مجلسوں سے سابقہ پیش آیا ہے جہاں مضحکہ خیز شرکیہ اعمال اور دور جاہلیت کے امور کو سر انجام دیا جاتا ہے جسے دیکھنے سے میری نگاہ نے جواب دے دیا اور میں کبیدہ خاطر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔

 مؤلف کا سا بقہ قبرپرستوں سے جبکہ وہ ڈوبنے کے قریب تھے :

لگ بھگ پچیس سال بحر احمر (REDSEA)میں سفر کا اتفاق رہا اس دوران بارہا اوہام وخرافات کے رسیا لوگوں کی صحبت و رفاقت بھی ہوئی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم لوگوں کا لگ بھگ اسی آدمیوں کا ایک قافلہ ایک چھوٹی سی باد بانی کشتی میں سوار جانب منزل رواں دواں تھا اچانک سمندری موجوں میں طغیانی پیدا ہوئی اور کشتی خطرناک موجوں کے تھپیڑوں میں ہمیں لے کر ادھر ادھر چکر کاٹنے لگی لگ ایسا رہا تھاکہ وہ ہمیں لے کر سمندر کی اتھا ہ گہرائیوں میں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گی اور کبھی موجوں کی اٹھان کے ساتھ کشتی اس طرح اوپر اٹھ جاتی گویا سمندر سے نکل کر فضاؤں میں اڑنا چاہتی ہے۔اس آزمائش کی گھڑی میں ان (قبر پرست)مسلمانوں نے گریہ وزاری فریاد اور پکار شروع کی لیکن اﷲ سے نہیں جوکہ ہمیشہ باقی رہنے والا اور ہر چیز پر قادر ہے بلکہ ان مرے ہوئے لوگوں سے جو ادنیٰ سی چیز پر قادر نہیں ۔

میں نے انہیں خود کی نگاہوں سے دیکھا کہ وہ لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں شیخ سعید بن عیسیٰ رحمہ اﷲ جن کو وفات پائے ہوئے چھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ان کی جانب سہمے ہوئے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ متوجہ ہوئے اور گھبراہٹ اور امید کی ملی جلی کیفیت میں ان کو یہ کہتے ہوئے پکارنا شروع کیا کہ(اے ابن عیسیٰ ہماری اس مشکل کو ٹال دیجئے اے دین کے ستون! ہماری اس مشکل کو حل فرما دیجئے) اور اسی پر بس نہیں بلکہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے قبر میں مدفون بزرگ ابن عیسیٰ کے نام کی نذر و نیاز ماننے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے تھے اور نجات مل جانے کی صورت میں ان کی قبر پر چڑھاوے چڑھانے کا عہد باندھ رہے تھے جیسے ان کے معاملات کا اختیار اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے بجائے انہی کے ہاتھ میں ہو ۔

 مؤلف کو سمندر میں پھیکنے کی نا کام کوشش :

اپنی کم سنی کے باوجود جب میں نے ان کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کی مشکل گھڑی میں ایک مسلمان کے لئے قطعاجائز نہیں کہ وہ غیر اﷲ کی طرف متوجہ ہو۔ بلکہ انتہائی شفقت اور خلوص کے ساتھ ان سے یہ گذا رش کی کہ وہ صرف اپنے پروردگار کی طرف رجوع کریں اور عبادت کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے دعائیں صرف اللہ تعالیٰ سے کریں‘ عاجزی اور انکساری کے ساتھ صرف اسی سے لو لگائیں، روئیں اور گڑ گڑائیں اور اس طرح کے حالات میں شیخ ابن عیسیٰ کو پکارناچھوڑ دیں کیونکہ ان کے پاس کسی چیز کا بھی اختیار نہیں ہے وہ تو اس وقت ان کی باتوں کو سنتے تک نہیں چہ جائیکہ اس کا جواب دیں اتنا سننا تھا کہ وہ سب میرے خلاف غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بیک زبان وہابی وہابی کہہ کر شور مچانے لگے قریب تھا کہ وہ مجھے خطر ناک موجوں کے حوالے کردیتے اگر اﷲ کی مدد اورپھران چند احباب کا تعاون حاصل نہ ہوتا جنہوں نے اب تک کھل کر ان کے سامنے اپنے صحیح عقیدہ کا اعلان نہیں کیا تھا ۔

جب جوار بھاٹے کا زور ٹوٹا اور سمندری طوفان پرسکون ہوگیا او ر ہم سب کومحض اﷲ کی مدد اوراس کے فضل وکرم سے نجات ملی نہ کہ ابن عیسیٰ کے فضل سے جس کو طبیعت بھی گوارا نہیں کرتی اور ہم آپس میں ایک دوسر ے سے گلے مل کر مبارکبادپیش کرنے لگے اس وقت یہ قبر پرست ہم کو کوسنے اورملامت کرنے میں لگ گئے ،مجھ پر احسان جتانے لگے اوریہ کہہ کر خوف زدہ کرنے لگے کہ اولیاء سے بد ظنی کا انجام بہت بھیانک ہے دیکھو اگر آج قطب (ابن عیسی) نہ پہونچے ہوتے اور ہم سب کو اس مشکل کی گھڑی میں اپنے آغوش میں نہ لیا ہوتا تو ہم سب کے سب اب تک مچھلیوں کی خوراک بن چکے ہوتے ۔!!!

 مشکلات کے وقت اولیاء کی حاضری کی خرافات:

اس قسم کے صریح کفریہ کلمات کو ان کی زبان سے سن کر میں تڑپ اٹھا میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ لوگ یقیناًاپنے نفسوں پر ظلم تو کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی آپ لوگ ا بن عیسیٰ رحمہ اﷲ پر بھی افترا پردازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیونکہ شیخ رحمہ اﷲ توتمہاری پکار سننے سے بھی رہے چہ جائیکہ اس پر لبیک کہتے ہوئے تمہیں ان خطرناک موجوں سے نجات دلانے کے لئے یہاں پہونچتے ۔

لوگو ہوش میں آؤ اور عقل کے ناخن لو‘ کیونکہ جن کوتم پکار رہے ہو وہ کب کے وفات پا چکے‘اورقرآنی نصوص میں اس بات کی واضح صراحت ہے کہ مردہ زندوں کی پکار کو نہیں سن سکتا اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [النمل : ۸۰]

’’بیشک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے رو گرداں جا رہے ہوں ‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ﴾ [فاطر : ۲۲]

’’اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں‘‘ ۔

یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ مردہ خواہ وہ کوئی بھی ہو زندہ کی کسی پکار کو نہیں سن سکتا الا یہ کہ جس کسی کے بارے میں کسی خاص دلیل سے مخصوص حالات میں استثناء ثابت ہو ۔ جب یہ ایک بدیہی بات ہے تو پھر ان قبر پرستوں کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مردوں میں سے جن کو وہ ولی سمجھتے ہیں وہ ان کی باتوں کو سنتے ہیں کیا ان کے پاس کوئی قرآنی آیت ہے جس میں اس بات کی صراحت مو جود ہے کہ ان کے فلاں شیخ یا سیدکو اﷲ نے مرنے کے بعد مردوں کے درمیان یہ امتیاز بخشا ہے کہ وہ اپنے مریدین کی باتوں کو سنتے ہیں ۔

سنن الٰہیہ سے جہالت اور کتاب اﷲ میں غور وفکر سے دوری ہی کی وجہ سے اس قسم کی حماقتوں کا صدور تم لوگوں سے ہوتاہے بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ انسان قادر مطلق اﷲجس کی معیت انسان کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ ان کی باتوں کو سنتااور حرکات وسکنات کودیکھتا ہے اس سے منہ موڑ کر عاجز و بے بس مردوں کی جانب رخ کر لے جو نہ تو اس کی باتوں کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی اسے دیکھ سکتے ہیں اور اس سے یکسر غافل ہیں ۔

رہی بات ہمارے نجات پانے کی تو اس میں نہ تو ابن عیسیٰ اور نہ ان کے علاوہ کسی اوربزرگ کا کوئی عمل دخل ہے ہم کو صرف اور صرف اﷲ بلند وبرتراور قادر وبااختیار نے محض اپنے فضل وکرم سے نجات دی ہے اس ذات پربزرگوں اور نبیوں کے واسطے اور وسیلہ سے تمہاری پکار اورفریاد کا کچھ بھی اثر نہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی مصائب کی اس گھڑی میں وہاں موجود نہیں تھا اس وقت صرف اﷲ واحد ہمارے ساتھ تھا اور وہی وہ ذات ہے جو ہمیں خشک و تر میں چلاتی اور ہماری حفاظت فرماتی ہے ۔خواہ وہ کوئی ہو اور کسی مکان سے انہیں پکار رہا ہو ۔

اور اگر بالفرض یہ بات مان بھی لی جائے کہ قبروں میں مدفون ان کے اولیاء لوگوں کی پکار کوسنتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااﷲکی طرف سے ان کواس بات کی اجازت بھی ملی ہوئی ہے کہ وہ اﷲکو چھوڑ کر ان کو پکاریں اور ان سے مددطلب کریں؟ اور ان ولیوں کو کیااﷲ نے اس بات کی کوئی خبر بھیجی ہے کہ ان کو اس بات کا اختیار دیاجاتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں کی پکار پر لبیک کہیں اور جب وہ ان کو مصیبت کی گھڑی میں پکاریں تو ان کو نجات دلانے کے لئے پہونچ جائیں یہ ایسے سوالات ہیں جوقیامت کی صبح تک قبر پرستوں سے جواب طلب ہوگا جس کا کوئی شافی جواب ان کے پاس نہ ہوگا۔

میرے اس جواب کو سن کر ان میں سے ایک فلسفیانہ انداز میں یوں گویا ہوا کہ ہمیں بھی ا س بات کا اعتراف ہے کہ اﷲ کی طاقت سب پر غالب ہے اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے۔

میں نے اس سے جواباً عرض کیا کہ تم لوگوں کا یہ بہت پرانا دھوکا ہے ا سی کے شکار زمانہ قدیم کے مشرکین بھی تھے اور سچ تو یہ ہے کہ تمہارے قول وفعل میں تضاد اور ٹکراؤ ہے کیونکہ اگر واقعی معنیٰ میں تمہارا ایمان اس بات پر پختہ ہوتا تو مصیبت اور پریشانی کی گھڑی میں اﷲ کی چوکھٹ کو چھوڑ کر مردوں کے آستانوں پر دستک نہ دیتے ان حقائق کی روشنی میں کیا یہ بات دعویٰ سے نہیں کہی جا سکتی کہ تمہارا اعتماد اور ایمان اﷲ کی ذات پر زمانہ قدیم کے مشرکوں سے بھی کمزور ہے کیونکہ وہ کم از کم مشکل کی گھڑی میں تو سب کو چھوڑ کر الٰہ واحد کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور عبادت کو اس کے لئے خاص کر لیتے تھے جیسا کہ ان کے بارے میں قرآن کریم کی صراحت اس سے پہلے گزر چکی ہے ۔

 شیطان قبر پرستوں کے سامنے ان کے اولیاء کی شکل میں کس طرح نمو دار ہوتا ہے ؟

ان میں سے ایک اور شخص (مجھ پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہوئے ) گویا ہوا : تم تو اولیاء سے بیزار اور ان کی کرامات کے منکر ہو اسی ناطے اﷲ تعالیٰ نے اس خاص لطف و سرور سے تم کو محروم رکھا جس کا نظارہ خود کی آنکھوں سے ہم نے اس نا مساعد گھڑی میں کیا ۰۰۰۰

میں نے اس سے عرض کیا : تم کو یہ کس نے بتایا کہ میں اولیاء سے بیزار اور ان کی کرامات کا منکر ہوں ؟ کیا تم نے اﷲ کے ولیوں میں سے کسی ولی کے بارے میں برا بھلا کہتے ہوئے مجھ کو سنا ؟ یااﷲ کے نیک بندوں میں سے کسی کی توہین وتنقیص کرتے ہوئے دیکھا؟ تم نے آخر مجھ سےکب سنا کہ میں کسی ایسی کرامت کا انکار کرتا ہوں جو کسی ولی کے حق میں کتاب وسنت کے نصوص سے ثابت ہو اور اس کے ذریعہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عزت بخشی ہو ؟؟

کیا تم نے کبھی مجھ سے سنا کہ میں نے اہل غار کی کرامت کا انکار کیا ہے اﷲ تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی اور اس چٹان کو ہٹادیاجس نے ان کے غار سے نکلنے کے راستے کو مسدود کر رکھا تھا ؟

کیا تم نے کبھی مجھ سے سنا کہ میں نے ابو بکر وعمر عثمان وعلی یا دیگرصحابہ کرام رضوان اﷲعلیہم میں سے کسی کی ولایت کا انکار کیا ہو جن کے بارے میں حدیث رسول میں صراحت ہے کہ وہ اولیاء اﷲ ہیں اور انہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی ہے؟

یا پھریہ ہمیشہ دھرائی جانے والی وہی تقلیدی تہمت ہے جسے تم ہر اس شخص کے سر تھوپ دیتے ہو جو تمہاری حماقتوں کا ساتھ نہ دیوے اورتمہاری بکواس کو حقیقت کے روپ میں تسلیم نہ کرے اورتمہاری نادانیوں پر خاموش نہ بیٹھے ؟؟

میں تم سے اس بات کو ضرور جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی چیز تھی جس سے لطف اندوز ہونے سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے محروم رکھااور جسے تم نے اس سخت گھڑی میں دیکھا

اس نے جواب دیا کہ ہم نے بڑے قطب (شیخ سعید بن عیسیٰ) کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھا‘گویا کہ وہ نور کا ایک شعلہ ہوں جوبادبان کاڈنڈا(کشتی کا پتوار)پکڑے ہوئے سمندر کو اپنی طغیانی چھوڑنے کا حکم دے رہے تھے اور سچ مچ ہوا بھی ایسا سمندر پرسکون ہوگیا اور ہم قطب اعظم کی برکت وطفیل سے اس مصیبت سے نجات پا گئے ۔

میں نے( ازراہ مذاق)اس سے کہا کہ کیا کبھی شیخ سعید بن عیسیٰ العمودی کا دیدار اس سے پہلے تمہیں حاصل ہوا ہے ؟جن کو وفات پائے ہوئے چھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ؟ اس نے جواب دیا : (قطعا)نہیں۔

میں نے اس سے عرض کیا کہ پھر تم نے کیسے یہ پہچان لیا کہ جسے تم نے بادبان کا ڈنڈا پکڑے اور سمندر کو طغیانی چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے دیکھا ہے وہ شیخ سعید بن عیسیٰ عمودی ہی ہیں ‘ تم کو تو اس سے پہلے ان کا دیدار بھی کبھی نصیب نہیں ہوا ؟؟چلو اگر ہم اس بات کو بالفرض تسلیم بھی کر لیں کہ کسی آدمی کو تم نے لنگر پکڑے دیکھا لیکن اب سوال یہ باقی رہ جاتاہے کہ اس کا یقین تمہیں کیسے حاصل ہوا کہ و ہ شیخ بن عیسیٰ ہی تھے۔کیا تمہارے پاس آسمان سے اس سلسلے میں کوئی وحی آئی ہے جو اس مزعومہ واقعہ کو ثابت کر رہی ہو ؟یہاں وہ دم بخود ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

 اس پر سرسامی کیفیت طاری ہوگئی اور ابن عیسیٰ کے حاضر ہونے کا اسے وہم ہو گیا ۔

میں نے اس سے عرض کیا کہ سچائی یہ ہے کہ تم نے لنگر پکڑے نہ تو ابن عیسیٰ کو دیکھا اور نہ ہی غیر ابن عیسیٰ کو‘ در اصل گھبراہٹ اور خوف کی اس گھڑی میں تم مالیخولیا(بیماری) کے شکار ہو گئے جس کے نتیجہ میں نیز شیطان کی مشارکت سے تمہاری نظروں کے سامنے ایسی تصویر بن گئی جسے تم نے ابن عیسیٰ تصور کر لیا حا لانکہ جسے تم نے دیکھا وہ ابن عیسیٰ نہیں بلکہ شیطان تھا جو اس شکل میں اس لئے نمودار ہوا تاکہ تمہاری گمر اہی میں مزیداضافہ کردے اور تمہیں جہالت کی تاریکی میں مزید ڈھکیل دے ۔

وہ چیخ کرصرف وہابی‘ منکر‘بد دین کے علاوہ اور کچھ نہ کہہ سکا اور اسی کے ساتھ ڈرامائی انداز سے مناظرہ کے سلسلے کوختم کردیا ۔

در اصل یہی وہ ہتھیارہے جسے یہ قوم آخری حربہ کے طور پراس وقت استعمال کرتی ہے جب دلیل انہیں لاجواب کر دے اور حقیقت ان کو طمانچہ رسید کرے ۔

اب میں نے اپنے مناظر ساتھی سے عرض کیا کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا اس میں وہ چیز نہیں جو تمہیں قانع کردے اس بات پر کہ میری بیان کردہ باتیں سب صحیح اور درست ہیں کہ مشکل کی گھڑی میں پہلے کے مشرکین کا ایمان اور اعتماد ا ﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات پر آج کے ان قبر پرستوں کے ایمان اور اعتماد سے قوی تر تھا؟

 قبر پرستوں کی غلط بیانیاں:

اس نے جواب دیا کہ ان لوگوں کی توحید اور ایمان باﷲ کو پہلے کے مشرکین کے ایمان اور توحید سے کمزور بتاکرنیز ان کو شرک سے متصف کرکے آپ نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ آپ کو خو ب معلوم ہے کہ ۔بقول آپ ۔ان قبرپرستوں نے جب بھی ابن عیسیٰ کے نام کی پکار لگا ئی یا مشکل کی گھڑی میں ان سے مدد کی فریاد کی تو یہ اس لئے نہیں کہ ان کا اﷲ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ نہیں اور نہ ہی اس کے پیچھے یہ اعتقاد کار فرما ہوتا کہ ابن عیسیٰ یا ان کے علاوہ جن بزرگوں کی وہ پکار لگاتے ہیں خشکی اور تری میں وہی ان کو چلاتے ہیں یا ان بزرگوں کی انہیں معیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کی پکار کوویسے ہی سنتے اور جواب دیتے ہیں جس طرح اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ان کی پکار کو سنتا اور اس کو پورا کرتا ہے۔

بیشک یہ سارے اعمال یہ لوگ اپنے اس اعتقاد کے پیش نظر انجام دیتے ہیں کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ انہیں ان اولیاء کے وسیلہ کی برکت اور اس کے طفیل میں نجات دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں کا ان ہستیوں کی پناہ میں جانااور خطرے کی گھڑی میں ان کے ناموں کا ورد کرنا محض اس اعتقاد کی وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ بزرگان دین اﷲ کے یہاں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی اس پہونچ کی وجہ سے ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان کی سن لیتا ہے اور ہمیں نجات مل جاتی ہے جنہیں اﷲ کے علاوہ کا نہ کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ خوف اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں ۔

میں نے اس سے جوابا عرض کیا کہ یہ بہت ہی پرانا دھوکا ہے جس کو بار بار دھرایا گیا ہے کوئی بھی ہوش مند انسان جسے اپنے نفس کا ذرا بھی احترام ہو گا وہ اسے گوارا نہیں کرے گا اس کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:

(۱)بلا شبہ قبر پرست اگر یہ اعتقاد نہ رکھتے کہ یہ مردہ اولیاء خوشی وغمی‘ تنگی وخوش حالی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اوران کی فریادوں کو سنتے ہیں اور ان کی پکار کا جواب دیتے ہیں اور مشکلات سے نجات دینے کی قدرت بھی رکھتے ہیں تواس طرح ان سے گڑ گڑا کر دعا نہ مانگتے فروتنی اور انکساری کی حالت میں ان سے مدد طلب نہ کرتے جس طرح ایک درماندہ اور بے بس ایک ایسے طاقتور کے سامنے گڑگڑا تا ہے جو ہر چیز پر قادر ہو ‘ ان کے سامنے نذر ونیاز پیش نہ کرتے اور نہ ہی نجات کی شکل میں چڑھاوے چڑھانے کا عہد کر تے اور پھرمانی ہوئی نذروں کی تکمیل اس طرح رغبت وخوف کے جذبوں کے ساتھ نہ کرتے ۔

کیا کوئی عقلمند انسان کسی ایسی شخصیت سے فریاد چیخ وپکار اور گڑگڑا کر دعا مانگنے کے لئے تیار ہوگا جس کے بارے میں وہ یہ جانتا ہو کہ یہ نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی جواب دیتے ہیں نہ ہی نفع پہونچاتے ہیں اور نہ ہی نقصان؟۔

 مرے ہوئے ولیوں کو پکارنا کفر ہے یا پھر دیوانگی:

بلا شبہ جو لوگ مردہ اولیاء کو پکارتے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تووہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ مردے انتہائی دوری اور مسافت کے باوجود ہماری پکار کو سنتے اور جواب دیتے ہیں

اور ہم کو مشکل سے نجات دلانے کی تدبیر اور جتن بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اوریقیناًوہ ایسا ہی اعتقاد رکھتے ہیں۔ تو اس قسم کا اعتقاد شرک اکبر ہے جس کے لئے اﷲ کے یہاں بخشش کی کوئی گنجائش نہیں۔

اور یا تو وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جن کو وہ پکارتے ہیں وہ نہ تو سن سکتے ہیں اور نہ ہی جواب دینے کی ان میں سکت ہے پھر ان کو پکارنا مجنونانہ حرکت ہے اور پاگل احکام شریعت کا مکلف نہیں ہوتا ہے ‘ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ان قبر پرستوں کو مشرک قرار دیں یا دیوانہ اور پاگل ۔

اورسچائی یہ ہے کہ یہ لوگ پاگل نہیں بلکہ شیطان کے دام فریب میں مبتلا اور گرفتارہیں اس نے شرکیہ اعمال کو خوشنما بنا کر ان کے سامنے پیش کیا اور اسکے تئیں ان کے رگ وپے میں محبت داخل کردی ۔

کیونکہ اگراﷲسے زیادہ ان کا اعتماد ولیوں کے بارے میں نجات دہندگی کا نہ ہوتا تو اﷲ ذو الجلال سے منہ موڑ کر مر دوں کی جانب عاجزی ‘انکساری اور گڑگڑاتے ہوئے اپنا رخ نہیں کرتے۔ اور جب بات ایسی ہے تو پھر اس سے بڑاکفر اور گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے جب سب کچھ غیر اﷲ کو سونپ دیا تو پھر اﷲکے لئے کیا باقی رکھا جس نے ان کو پیدا کیا اور بہترین شکل وصورت بخشی ؟؟

اس تفصیل اور بحث ونقاش میں اس حد تک پہونچ جانے کے بعد اس نے مجھ سے الجھن اورپریشانی کے عالم میں اٹکتے ہوئے کہا۔: اور لیکن۰۰۰ ۰۰۰۰اور لیکن۔پھر اس کی یہ اٹک توقف کی حد تک پہونچ گئی اور پھر وہ گفتگو سے عاجز ہو گیا اور بظاہر بحث اور غور وفکر کی نا کام کوشش کرنے لگا ۰۰۰۰

میں نے اس سے کہاکہ لیکن۰۰۰۰۰۰۰اوراگر مگر ۰۰۰۰۰کرنا چھوڑودلیل بہت واضح ہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں ہے کیونکہ ان مشرکانہ حماقتوں اور وثنی خرافاتوں کی کوئی دلیل نہ ہے سوائے مغالطہ‘ چکمے ‘ توہم پرستی اوران حیلوں اور بہانوں کے جن کی بنیاد پر تم اپنے دین کو دفن اور اپنے اسلام کو بھینٹ چڑھا دیتے ہو ۔

میں اس سے د وبارہ مخاطب ہوا : اتنی زیادہ وضاحت اور تشریح کے بعد میرا خیال ہے کہ اب تمہیں اس بات پر قانع کرنے کے لئے مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جس شرک کی وجہ سے اﷲ نے مشرکوں کی مذمت کی ہے وہ یہ نہیں تھا کہ مشرکین اپنے معبودوں (یغوث‘یعوق نسر‘ لات ‘ عزی اورمناۃ) کو وجود بخشنے ‘مارنے جلانے نفع یا نقصان پہونچانے میں اﷲ کا ساجھی قرار دیتے تھے اور نہ ہی ایسا تھا کہ وہ اﷲ کے وجود اور اس کی بادشاہت واختیارات کے منکر تھے ایسی باتیں ان میں سے نہ کوئی کرتا تھا نہ ان کا یہ عقیدہ تھا ۔

 اسلام سے پہلے کا الحاد:

اس نے ایسے کہا :۔جیسے کوئی دلیل پالی ہو۔ کیوں نہیں جناب قرآن کریم سے تو یہ بات ثابت ہے کہ وہ لوگ اﷲ کے وجود کے منکر تھے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں میں سے ایک کی بات کو قرآن حکیم میں یوں نقل کیاہے:﴿وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴾ [الجاثیۃ:۲۴]

’’انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے (در اصل) انہیں اس کا کچھ علم ہی نہیں ۔یہ تو صرف قیاس اور اٹکل سے کام لے رہے ہیں‘‘۔

میں نے اس سے کہا: یہ وہ مشرکین نہیں ہیں جن کے بارے میں ہم ابھی آپ کو بتا چکے ہیں یہ توانہیں عربوں میں سے کچھ دھریہ لوگ تھے جوسرے سے اﷲ کے وجود کا انکار کرتے تھے اور بالکل انہیں کی روش اور ڈگر پر آج کے دور میں کمیو نسٹ چلتے ہیں یہ لوگ نہ تو اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کاموں کو انجام دیتے ہیں جنہیں مشرکین اﷲ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کرتے تھے یہ تو بس دہریہ قسم کے لوگ ہیں جو اﷲ کی ہستی ہی کو تسلیم نہیں کرتے اور جب اﷲ کی ہستی کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان بتوں اور گھڑے ہوئے معبودوں کے معترف کیوں کر ہوتے جنہیں مشرکین اس لئے پکارتے تھے تاکہ وہ اﷲ کے یہاں ان کے سفارشی بن جائیں۔

پہلے کے مشرکین کا شرک اﷲ کے وجود پر ایمان رکھتے ہوئے بیچ میں اس کے بندوں کو واسطہ بنانا اور ان سے مدد کی فریاد کرنا تھا اسی چیز کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں بیان کیا ہے:﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴾ [یوسف:۱۰۶]

’’ان میں سے اکثر لوگ اﷲپر ایمان رکھنے کے باوجودبھی مشرک ہی ہیں‘‘۔

اگر مشرکین کا ایمان اﷲ کی ذات پر نہ ہوتا تو وہ ان خود ساختہ معبودوں کو اﷲ سے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بناتے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے: ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ [الزمر:۳] ’’اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘ ۔

ان گزارشات کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر صحیح قرار پاتی ہے کہ سورۃجاثیہ کی جس آیت کو بطور دلیل ہمارے خلاف پیش کرتے ہو اس کے مخاطب وہ مشرکین نہیں ہیں جن کی حقیقت میں نے آپ کے سامنے بیان کردی ہے اس کے مخاطب تو باشندگان عرب میں سے دہریہ قسم کے تھے ‘ یا پھر تعبیر جدید کے مطابق کمیو نسٹ تھے اگریہ تعبیر درست ہو کیونکہ یہ بات بہت بعید ہے خاص کر ان لوگوں کے سلسلے میں جو کہ اپنے شرک کے دفاع اور جواز کے لئے اپنے معبودوں اور ولیوں کے سلسلے میں یہ کہتے ہیں:

﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ [الزمر:۳]

 ’’ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘ ۔

 یا پھر یہ کہتے ہیں:﴿هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾[یونس: ۱۸ ]

’’یہ اﷲ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں‘‘۔

ناممکن ہے کہ وہ لوگ اﷲ کے وجود کا انکار کریں جنہوں نے خود ساختہ معبودوں اور ولیوں کا دامن صرف اس لئے تھاما کہ وہ اﷲکی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کر ا دیں اور ان کے حق میں شفاعت کر دیں۔

مزید برآں وہ قرآنی آیات بھی ہیں جن میں اس بات کا کھلا ثبوت موجودہے کہ وہ لوگ اﷲ کے وجود کے معترف تھے اور توحیدربوبیت کے قائل تھے جس کا ذکر پہلے گزر چکا۔

 قدیم مشرکوں کے شرک کی حقیقت :

اس نے مجھ سے عرض کیا : (جبکہ وہ گفتگو لمبی ہوجانے سے اکتا چکا تھا ) مشرکین عرب اگر اﷲ کو مانتے تھے اور اس کی ذات کو یکتاوتنہا تسلیم بھی کرتے تھے تو پھر آخر وہ کون سا شر ک تھا جس کی خبر اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے بارے میں دی ہے اور اس کی وجہ سے ان کے جان و مال کو حلال قرار دیا اور اپنے رسول کوان سے جہادکرنے کا حکم دیا جب کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور اس کی تو حید کا اقرار بھی کرتے ہیں؟

میں نے اس سے عرض کیا : اصل سوال آپ نے اب پوچھا دراصل یہی وہ حساس نقطہ ہے جہاں پرعقلیں لغزش کھاتی ہیں اور قدم پھسل جاتے ہیں حا لانکہ لوگ اگر اس نقطہ پر ذرا گہرائی سے نگاہ ڈا لیں تدبر اور تفکر سے کام لیں بحث اور تحقیق کی راہ اپنائیں اور اس کو پورا حق دیں تو اسلام کی طرف نسبت کرنے والے کسی ایک فرد کو بھی د عا اور فریاد‘ قربانی اور نذریا ان کے علاوہ دیگر کام جو خالص اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حقوق میں سے ہیں ان کو نبیوں یا ولیوں میں سے کسی کے لئے کرنے والا نہیں پاسکتے۔

مشرکین عرب کے شرک کی حقیقت سے لاعلمی نے آج لوگوں کو شرک میں مبتلا کردی اس خطر ناک پہلو سے لو گوں کی غفلت اورپہلے کے مشرکین کے شرک کی حقیقت سے ناواقفیت نے آج کے زمانہ میں بیشتر لوگوں کو ان اعمال میں ڈھکیل دیاجس کو وہ شرک نہیں سمجھتے حالانکہ وہ مشرکانہ ہیں اور ان اعمال میں مبتلا کردیا جسے وہ کفر نہیں سمجھتے حالانکہ وہ سب کافرانہ ہیں (مردوں سے دعا اور فریادان کے لئے جانور قربان کرنا یاان کے نام کی نذرونیاز دینا تاکہ یہ (بزرگ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ان کی رسائی کرا دیں اور ان کے حق میں اﷲ سے سفارش کر دیں)جبکہ اﷲ نے انہیں ان باتوں کا حکم نہیں دیا۔

 شرک کے سلسلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندیشہ :

موجودہ زمانہ میں جس انداز سے لوگ شرک میں مبتلا ہیں اس کا اندیشہ حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے تیرہ صدی پیشتر ظاہر کردیا تھا‘ آپ فرمایا کرتے تھے ’’عنقریب اسلام کے تارو پودبکھر جائیں گے ‘‘ پوچھا گیا امیر المؤمنین یہ کیسے؟ جواب دیا: ’’جب اسلام میں ایسے لوگ جنم لیں گے جو جاہلیت کی حقیقت سے نا واقف ہوں گے ‘‘ یالگ بھگ آپ نے اسی طرح کے الفاظ فرمائے۔

آج کے دور میں جو لوگ مردوں کو پکارتے ہیں‘ان کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں‘ ان کے لئے نذر مانتے ہیں ‘ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں ان کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی اور بے بسی سے جھکتے ہیں اور ان کے سامنے گڑ گڑا تے ہیں اس اعتقاد کے پیش نظر کہ یہ لوگ ہمارے لئے اﷲ تک رسائی کا واسطہ اور وسیلہ بن جائیں گے ‘ اگر یہ لوگ اس بات کو جان لیتے کہ ہو بہو یہی وہ اعمال تھے جنہیں زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کیا کرتے تھے اور جن کو اﷲ نے شرک بتایااور کفرقرار دیاتو ضرور یہ لوگ ان کاموں کو انجام نہ دیتے نہ ان کے قریب جاتے اور نہ ہی نکیر کرنے والوں پر آگ بگولا ہوتے ۔

رہی یہ بات کہ پہلے کے مشرکین کے شرک کی حقیقت کیا تھی جس کی وضاحت آپ نے مجھ سے طلب کی ہے اور اس کی حقیقت کے بارے میں دریافت کیا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ لوگ اﷲ کے وجود پرپورا پورا ایمان رکھنے اور اس بات کو تسلیم کر نے کے باوجود کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی قادر مطلق ہے اور کائنات کی ہرچیز میں تصرف کا اختیار بلاشرکت غیر ے صرف اسی کو ہے ان لوگوں نے بغیر کسی آسمانی دلیل اور برہان کے من مانی ایک بدعت ایجاد کر لی تھی جس کو ان کی عقلوں نے بہتر سمجھا تھا اور ان کے نفسوں کو اس میں سکون محسوس ہوا تھا اور وہ یہ کہ انہوں نے اﷲ ہی کی مخلوق میں سے کچھ لوگوں جیسے (لات‘ عزیٰ‘ مناۃ ‘ یغوث‘ یعوق‘نسر۰۰۰۰۰۰۰۰وغیرہ) کو ولی اور واسطہ قرار دے لیا تھا جن کی وہ پناہ لیتے تھے اور دعا‘ نذر اور قربانی کے ذریعہ ان سے قربت حاصل کرتے تھے تاکہ یہ بزرگ اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ان کی رسائی کرا دیں اور ا ن کی ضروریات کی تکمیل اور آئی ہوئی بلا کے ٹالنے کے سلسلے میں اﷲ سے ان کے حق میں سفارش کر دیں جبکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ان باتوں کا کوئی حکم قطعا نہیں دیا اور نہ ہی اس چیز کو ان کے لئے پسند فرمایا ۔

اسی بات کو قرآن نے مر اد لیا اور ان پر نکیر کی اپنے اس قول کے ذریعہ: ﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾[یونس:۱۸]

’’اور یہ لوگ اﷲ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہونچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲکے پاس ہما رے سفارشی ہیں آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ پاک اور برترہے ان لوگوں کے شرک سے‘‘۔

نیز فرمایا: ﴿مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ﴾ [السجدۃ : ۴]

’’تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ‘‘۔

 ولیوں کو اﷲ تک رسائی کا ذریعہ بنانا حقیقی کفر ہے

ولیوں سے توسل‘ واسطہ اور شفاعت کے فلسفہ کے پیش نظرہی یہ لوگ ان کو پکارتے اور ان سے فریاد کرتے تھے ان کے لئے جانورذبح کرتے اور ان کے نام کی منتیں مانتے تھے ان کے مجسموں اور ان کے ناموں پر نصب پتھروں کے ارد گرد طواف کرتے ان کو معبود کے درجہ میں اتار کر اور مرجع امید بنا کر اس گمان کے ساتھ کہ یہی وہ دروازہ ہے جس کے سہارے وہ اﷲ تک بآسانی پہونچ سکتے ہیں ۔

یہ اور اس جیسی بے شمار چیزیں ان کے یہاں موجود تھیں جس پر اﷲ نے ان کی نکیر کی اور ان کے اس فعل کو شرک اور کفر قرار دیا ان کی جان و مال کو مباح قرار دیااور ان کے خلاف قتال کے لئے محمد ﷺ نے بدر‘ احد ‘حنین‘ خندق وغیرہ میں تلوار اٹھائی ا ور اپنے اور ان کے درمیان ہر طرح کے خاندانی وقرابت کے سارے تعلقات منقطع کر لئے ۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس عمل کو غیراﷲکی عباد ت قرار دے کر اسے شرک گردانا اور اس پراپنی نا راضگی ظاہر کی اور اپنی رحمت سے دور کردیا کیونکہ انہوں نے از خود ان راستوں کو اپنایا تھااور ازخود شفاعت اور وسیلہ کی بدعات کو جنم دیا تھا وہ اپنے ولی معبود پراعتماد اور بھروسہ کرتے تھے ان کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ اﷲ تک پہونچنے کا وہ ان کے لئے دروازہ بن جائیں جبکہ اﷲ نے انہیں اس بات کی کوئی اجازت نہیں دی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ﴾

[البقرۃ: ۵۵]’’کون ہے جو اس کی اجاز ت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے‘‘۔

یہ سن کر اس نے کہا :تمہاری یہ بات بھی مجمل ہے اس پر ہمیں کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی جس سے اسکی صحت کے سلسلے میں ہمیں تسلی ہو ‘ آپ اس کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے کیا دلیل مفصل لائیں گے؟؟

میں نے اس سے کہا کہ یہ دلیل بھی اﷲ کی کتاب ہی سے پیش کریں گے اﷲ تعالیٰ فرماتاہے:﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗإِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

[الحج:۷۳۔۷۴]

’’لوگو ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو اﷲ کے سواجن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے ‘گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں ‘ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے بڑا بودا ہے طلب کرنے والااور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے ‘ انہوں نے اﷲ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدرجانی ہی نہیں‘اﷲ تعالیٰ بڑا ہی زوروقو ت والا اور غالب و زبر دست ہے‘‘۔

اﷲ تعالیٰ نے سورۃ یونس کی آیت میں جو کہ پہلے گزر چکی ہے اس میں بھی ان کے اس عمل پر نکیر کی اورغیر اﷲ کو پکارنے اور ان کو اﷲ کے پاس شفارسی اور واسطہ بنانے کو مشرکانہ عمل قرار دے کراسے غیراﷲکی عباد ت بایں طور بتایاہے:﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ﴾[يونس:18]

’’اور یہ لوگ اﷲ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہونچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہونچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲکے پاس ہما رے سفارشی ہیں‘‘۔

پھر ان کے دعویٰ کو باطل قرار دیتے ہوئے اور ان کے شفارسی اور واسطہ بنانے کی دلیل کو ردکرتے ہوئے زجرو توبیخ کی شکل میں ان کی سخت نکیر کی چنانچہ ارشاد فرمایا:

﴿قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾[يونس:18]

’’آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برترہے ان لوگوں کے شرک سے‘‘ ۔

یعنی اﷲسبحانہ وتعالیٰ کو قطعا اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ کوئی بندہ اس تک رسائی کے لئے اس دنیا میں کسی واسطے اور سفارشی کو تلاش کرے، کیونکہ وہ بندوں کے تمام احوال سے خود باخبر ہے، ادنی ٰ سی چیزبھی اس سے اوجھل نہیں پھر شفاعت اور واسطے کی کیا ضرورت، اس کی ضرورت تواس صورت میں ہوتی جب کوئی چیز اس سے پوشیدہ رہ جاتی اور اس کو اطلاع کی ضرورت ہوتی، اﷲ تعالیٰ کی ذات پاک وبرترہے ان کی ان باتوں سے۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ایک اور جگہ ان صالحین کا وسیلہ اپنائے جانے پر جن کے بارے میں انہیں حسن ظن تھا ان کی نکیر کی اور یہ واضح کیا کہ اﷲ کو چھوڑ کر یہ جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ بھی انہیں کے مانندہیں جوکہ خود اپنے آپ کے لئے جلب منفعت اور دفع مضرت کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ وہ ان سے کسی تکلیف کو دور کر سکیں یا کسی پریشانی کو ٹال سکیں وہ تو اﷲ سے اپنی قربت کے باوجو د اس کی رحمت کی امید لگا کر اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہوکر اس سے مزید قربت حاصل کرتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا﴾ [الإسراء:۵۶-۵۷]

’’کہہ دیجئے کہ اﷲ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں ۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اسکی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے‘‘۔

اس کے علاوہ بھی متعدد جگہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے علاوہ مخلوق کی پکار کوشرک قرار دیاہے ارشاد ہے :

﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ [فاطر:۱۳-۱۴]

’’جنہیں تم ان کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں اگر تم

انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبر دار خبریں نہ دے گا‘‘ ۔

اور فرمایا:﴿لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ [الرعد:۱۴]

’’اسی کو پکارنا حق ہے جو لوگ اورو ں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان(کی پکار)کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑجائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہونچنے والا نہیں ‘ ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے‘‘ ۔

اور فرمایا:﴿أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ﴾ [الزمر:۳]

’’خبر دار اﷲتعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ( بزرگ) اﷲکی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ‘یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا)فیصلہ اﷲ(خود)کرے گا جھوٹے اور نا شکر ے (لوگوں) کو اﷲ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا‘]۔

یہ چنددلیلیں ہیں(نہ کہ سب) جو مشر کین کے حالات کے سلسلے میں میرے بیان کی صداقت کو ثابت کر رہی ہیں اور شرک کی اس حقیقت کو بیان کر رہی ہیں جس پر پہلے کے مشرکین کار بند تھے اور یہی وہ شرک ہے جس میں آج بھی بہت سارے لوگ شرک کی حقیقت سے نا واقفیت کی بنا پر واقع ہو جاتے ہیں ۔

 قبرپرستوں کے سب سے بڑے شبہ کا انہدام(ازالہ):

اس نے کہا کہ جن آیتوں کو آپ نے بطور دلیل میرے سامنے پیش کیاہے یہ تو زمانہ جاہلیت کے عرب مشرکین کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اور یہ انہیں کے ساتھ خاص بھی ہیں اس سے آج کے ان مسلمانوں کو مراد نہیں لیا جا سکتا جو اولیاء سے مدد اور فریاد کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ان پر کسی طرح فٹ نہیں آتیں۔

میں نے کہا :یہ ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی اور ایک و اضح غلط بیانی ہے۔

بلا شبہ ان آیتوں کا نزول مشرکین عرب کے سلسلے میں اور اسی زمانہ میں ہوا بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ پورا قرآن اسی زمانہ میں نازل ہوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ہے اور یہ اﷲ کا وہ پیغام ہے جس کے مخاطب زمان ومکان کی قید کے بغیر قیامت تک آنے والے سبھی انسان ہیں اس لئے اس کے احکا م ہر دور میں واجب الاتباع ہو نگے اور جن چیزوں سے بچنے کے احکام اس میں دئے گئے ہیں قیامت تک حتمی طور پر ان سے بچا جائے گا ۔

قرآن مجید کے احکام کے سلسلے میں کسی خاص سبب کو نہیں بلکہ لفظ کے عموم کو دیکھا جائے گا کیونکہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ حکم کی بنیا د علت(سبب) پر ہے جب جب وہ علت کسی چیز میں پائی جائے گی و ہی حکم اس پر صادر ہوگا ۔

پہلے کے عرب مشرک کیوں قرار پائے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اﷲ کے ساتھ اس کے بندوں میں سے بھی کچھ لوگوں کوپکارتے تھے اور ان پر بھر وسہ کرتے تھے تاکہ یہ لوگ اﷲ کے پاس ان کے سفارشی بن جائیں بعینہ یہی چیز آج کے دور میں قبر پرست انجام دیتے ہیں ‘ولیوں کو پکارتے ہیں اور ان سے مدد اور فریاد طلب کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ اﷲ تک رسائی کا ان کے لئے ذریعہ بن جائیں علت اور قصد کے مشترک ہونے کے ناطے دونوں فریق کے حق میں یکساں طور پرشرک کے ارتکاب کا حکم صادر ہواکیونکہ دونوں فریق غیر اﷲ سے دعا قربانی اور نذر ومنت کے کام اسی امید پر انجام دیتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ان کے حق میں سفارشی بن جائیں گے ۔

اس نے کہا کہ جس قیاس کی بنیاد پر آپ شرک کا حکم بلا کسی تمییز کے دونوں فریق پر یکساں طور پرچسپاں کر رہے ہو وہ قیاس قیاس مع الفارق(صحیح نہیں) ہے اسلئے تسلیم کے قابل نہیں ہے ۔

میں نے اس سے عرض کیا کہ دیکھو میں نے کوشش کر کے تمہارے سامنے اس بات کو واضح کردیا کہ پہلے کے مشرکین کافر اس لئے قرار پائے کہ وہ اﷲ کے بندوں کو واسط اور سفارشی بناتے تھے اور ان کے قرب کو حاصل کرنے کے لئے ان سے دعا ئیں کرتے ان کے نام کی منتیں مانتے اور جانورذبح کرتے تھے اور میں نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ آج کے دور میں قبر پرست سر میں سر ملا کر اسی ڈگر پر اور ہو بہو انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہیں‘ اور اگر آپ کو میری ان باتوں سے کچھ بھی اختلا ف ہے تو کیاخود آپ اس فرق کو بیان کر یں گے جس کی بنیاد پر ان کے عمل کو آپ کفر اور شرک قرار دے کر انہیں دائمی طور پر جہنمی بتارہے ہیں جبکہ آج کے دور کے لوگوں کے عمل کو نہ صرف یہ کہ جائز بتا رہے ہیں بلکہ اﷲ کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کا واسطہ اور ذریعہ بھی قرار دے رہے ہیں حا لانکہ دونوں فریق کا مقصد اور کام یکساں ہے؟

اس نے عرض کیا کہ دونوں میں فرق بچند وجوہ پایا جاتا ہے۔

۱۔ پہلے کے مشرک غیر اﷲ کی عبادت کیا کرتے تھے([2] )جیساکہ واضح طور پراﷲ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراف کو بیان کیا ہے (مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَااِلیَ اﷲِ زُلْفیٰ)’’ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘

جبکہ آج کے زمانہ کے لوگ جو ولیوں سے وسیلہ اپناتے ہیں وہ غیر اﷲ کی عبادت کا سرے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ مرے ہوئے ولیوں کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے سے ہمارا مقصد ان کی عبادت نہیں بلکہ ان سے صرف تبرک اور وسیلہ اپنانا ہے چنانچہ اس طور پر دونوں زمانہ کے مشرکین میں واضح فرق ہو جاتا ہے ۔

 الفاظ کے بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی :

میں نے اس سے عرض کیا کہ دیکھو تمہیں یہ بات بتا چکا ہوں کہ افعال اور مقاصد ہی پر در اصل حکم کا دارو مدار ہے اور الفاظ کی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی جسے وہ اپنے شرکیہ تصرفات کے دفاع کے لئے بڑے شد ومد سے پیش کرتے ہیں محض اس خوف سے کہ کہیں اس پر بھی وہی حکم صادر نہ ہو جائے جبکہ اس کے فعل میں بھی و ہی علت مو جود ہے جو اسی حکم کا موجب بن رہی ہے جو حکم فریق مخالف پر صادر ہوا ہے۔

فرض کرو کہ اگر ایک انسان کسی بت کوسجدہ کرنے کا اپنے آپ کو عادی بنا لے اور وہ اپنے اس کام پر مستمر رہنے کے با وجود غیر اﷲ کی عبادت کا انکارظاہر کرے اور پوری صراحت سے یہ کہے کہ وہ غیر اﷲ کی عبادت میں ہر گز ملوث ہے نہ ہوگا تو کیا یہ فعل انجام دینے کے ساتھ اس کا زبانی دعویٰ اس پر شرک و کفر کا حکم لگنے سے مانع ہو جائے گا ؟؟

اس نے جواب دیا ۰۰۰ نہیں۰۰۰بلکہ ایسا شخص کافر اور مشرک ہوگا۔

میں نے عرض کیا کہ پھرتو یہی حکم آج کے قبر پرستوں پر فٹ ہونا چاہئے کیونکہ ان کا طرز عمل اگر دیکھا جائے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ مستقل طور پرشرک اور کفر میں ڈوبے ہونے کے باجود وہ غیر اﷲ کی عبادت کا انکار کرتے ہیں اور شرک میں ملوث ہونے کوتسلیم نہیں کرتے ۔

بس فرق دونوں کے درمیان اتنا ہے کہ پہلے کے مشرکین نے اس بات کو بصراحت تسلیم کرلیا کہ وہ غیراﷲ کی عبادت کرتے ہیں جبکہ آج کے قبر پرست مشرکوں نے غیراﷲ کی عبادت ضرور کی لیکن اپنے اس عمل کو بہت سارے خوشنما نام دے کرغیراﷲ کی عبادت کرنے سے انکار کیاگویا یہ لوگ مشرکین عرب کے مقابلہ از روئے مغالطہ اور فریب زیادہ اصلی اور ماہر نکلے ۔

اس نے کہا (دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہوئے)میں آپ سے عرض کر چکا ہوں اور بار بار اپنی اسی بات کو آپ کے سامنے دھرا رہا ہوں کہ پہلے کے مشرکین کے اعمال غیر اﷲ کی عبادت کے جنس سے تھے اس ناطے وہ مشرک قرار پائے اور ان پر کافر ہونے کا حکم صادر ہوا ۔

لیکن آج کے دور کے لوگ جو کہ ولیوں کی ذات کا وسیلہ پکڑتے ہیں یا ان سے فریاد کرتے ہیں وہ یہ کام ان کی عبادت کے طور پر نہیں کرتے اس ناطے ان پرکافر یا مشرک ہونے کا حکم صادر کرنا صحیح نہ ہوگا۔

میں نے اس سے کہا کہ تم نے حقیقت کے اعتراف سے فرار کی بار بار کی کوشش سے تھکادیا جبکہ مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ تم جیسے دیدہ ور شخص اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں اس قدرپس وپیش اور کٹ حجتی سے کام لوگے ۔

میں نے تمہارے سامنے بالکل اس چیز کو واضح کردیا ہے اور اب اس میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کہ حقیقی معنیٰ میں پہلے کے مشرکوں کا ایمان اﷲ کی ذات پر تھا اور وہ صحیح معنیٰ میں توحید ربو بیت کے قائل تھے اور اس بات کو بھی میں نے پورے طور پر صراحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ ان کے شرک کی حقیقت کیا تھی اور کن اسبا ب کی بنا پر انہیں مشرک گردانا گیا اور ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔

میں نے اس حقیقت کو بھی تفصیلی طور پر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ ان قبوریوں کے سلسلے میں ہم نے شرک کے ارتکاب کا جو حکم لگایا ہے وہ حکم ان کے افعال اور ان سابق مشرکوں کے افعال کے درمیان موازنہ پر مبنی ہے جن کو قرآن نے تیرہ صدی قبل مشرک قرار دیا تھا ۔

اور ہم پوری تحقیق اور مکمل تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر آئے ہیں کہ آج کے قبر پرستوں کی اپنے ولیوں سے دعا وفریاد ‘نذر وقربانی اور خوف وامید سب غیر اﷲ کی عبادت ہے کیونکہ بعینہ یہی وہ سارے کام تھے جسے پہلے کے مشرکین بھی اپنے ولیوں اور بزرگوں کے نام پر انجام دیا کرتے تھے اور جس کو قرآن نے غیر اﷲ کی عبادت بتایا پھر بھی اگر آپ کا اصرار ہے کہ دونوں فریق کے درمیان از روئے حکم کے امتیاز برتا جائے گا تو پھر میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گا جس کا تفصیلی جواب آپ سے مطلوب ہے امید کہ آپ زحمت کریں گے‘

ز مانہ قدیم کے مشرکین غیراﷲ کی عبادت کس طور پر کرتے تھے اور انکی عبادت میں وہ کون سی کیفیت تھی جس کی بنیاد پر اﷲ نے انہیں مشرک قرار دیا اور ان پر کفر کا فتویٰ لگایا ؟

 غیر اﷲ کوپکارنا اور ان کے لئے نذر وذبیحہ پیش کرناشرک اکبر ہے :

آپ اس سوال کا جواب دیں تاکہ واقعی معنیٰ میں اگر دونوں فریق کے درمیان کوئی فرق ہے تو اسے ہم جان سکیں اور پھر اس کی رہنمائی میں ہم بآسانی آپ کے اس نظریہ کی صحت تک رسائی حاصل کر سکیں جس کی بنیاد پر آپ پہلے کے مشرکین کے اعمال کو غیر اﷲ کی عبادت قرار دے رہے ہیں اور ان قبر پرستوں کے اعمال سے عبادت کی اس کیفیت کی نفی ثابت کر رہے ہیں؟

یہاں اس پر سرا سیمگی اور حیرانی کی کیفیت طاری ہوئی کیونکہ یہ سوال ایک کوڑا ثابت ہواجو اس کی پیٹھ پر برس رہا ہو‘ یا اس سوال نے اسے چکی کے دو پاٹ کے درمیان ڈالدیا لیکن ان سب کے باوجود وہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں تھا البتہ اپنی شدت حیرت کی وجہ سے اس حقیقت کا اعتراف کر ہی لیا جس سے وہ پورے بحث ومباحثہ کے دوران راہ فرار اپناتا رہا۔

اس نے کہا :کہ وہ حقیقت جس کا اعتراف کر لینا ضروری ہے یہ ہے کہ پہلے کے مشرکین اپنے بتوں سے دعا‘قربانی ‘نذر‘ طواف ا ور اس جیسی دیگر عبادات ومناجات صرف ان کی قربت حاصل کر نے کے لئے کرتے تھے ا س اعتقاد اور تصور کے ساتھ کہ یہ لوگ پیدا کرنے ‘روزی دینے ‘ مارنے اور جلانے میں نفع پہونچانے اور شر کو دور کرنے کا اختیار نہیں رکھتے چنانچہ وہ جو کچھ اپنے معبودوں کے لئے کرتے تھے اس سے ان کا مطلوب ومقصود بس یہ ہوتا تھا کہ وہ ان سے خوش ہو جائیں اور پھراﷲ تک ان کی رسائی کرا دیں اور ان کے حق میں اﷲ سے سفارش کر دیں تاکہ یہ لوگ اس کی رحمت اور کرم کے مستحق ہو جائیں۔

یہ ہے عبادت غیر اﷲ کی وہ حقیت جس کی بنا پر اﷲ نے ان کا نام مشرک رکھ دیا اور ان کو کافر قرار دیا ‘میں کچھ چھپا ئے بغیرپوری صراحت کے ساتھ اس بات کو آج کہنا چاہوں گا کہ اب تک میں پہلے کے مشرکین کے شرک کی اس حقیقت سے نا آشنا تھا لیکن یہ حقیقت اس مناقشہ سے آشکارا ہو گئی جو اس بار ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا ۔

میں نے عرض کیا کہ بہت خوب اب ہم دونوں موضوع کے سب سے اہم ترین نقطہ پر متفق ہو چکے ہیں اور وہ ہے اس عبادت کی تحدید اور تعیین جس پر زمانہ قدیم کے مشرکین کار بند تھے‘اور اس سے طبعی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ اس حقیقت کے معترف ہیں کہ دعا‘ قربانی‘ طواف‘ نذر ‘عاجزی اور انکساری یہ سب عبادت ہیں۔

 پہلے کے مشرکوں اور آج کے قبر پرستوں میں کوئی فرق نہیں :

میں نے عرض کیا کہ اب جاکر تم نے میرے سوال کا صحیح جواب دیا ہے اور اب میں ایک اور سوال کرنا چا ہوں گامجھے پوری امید ہے کہ آپ اس کا بھی جواب اسی طرح پوری صراحت سے دو گے ۔

آپ یہ بتائیں کہ کیا آج کل مردہ اولیاء سے قبر پرستوں کی دعا ‘قربانی‘ نذر ‘ طواف ‘ آہ وزاری اس امید پر نہیں ہوتی کہ وہ ان سے خوش ہو جائیں اور پھر ان کے حق میں اﷲ سے سفارش کر دیں اور ان کے لئے اس تک رسائی کا ذریعہ بن جائیں؟؟

اس نے کہا: حقیقت حال تو یہی ہے جس سے انکار کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میں نے عرض کیا کہ پھر توہم دونوں گویا اس بات پر بھی متفق ہو گئے کہ فریقین میں اس ناحیہ سے بھی یکسانیت پائی جاتی ہے قبر پرست دعا ‘گریہ ‘قربانی اور طواف ‘ کے سا تھ اپنے ولیوں کا رخ کرتے ہیں اور مشرکین انہیں سارے کاموں کو اﷲ کو چھوڑ کراپنے بنائے ہوئے معبودوں کے نام پرکرتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریق غیر اﷲ کی عبادت میں برابر کے شریک ہیں اور یہ کھلا ہوا شرک ہے جسے اﷲ نے حرام قرار دیا ہے۔

کیا ۔اس وضاحت۔ کے بعد بھی تمہارے یہاں اس بات کا اعتراف کر لینے میں کوئی رکاوٹ ہے کہ قبر پرست اپنے ان اعمال کی پاداش میں مشرک قرار دئے جائیں کیو نکہ دونوں فریق کا حال از روئے قصد اور عمل کے بالکل یکساں اور متحد ہے ؟؟

 کیا بتوں اور مورتیوں کے پکارنے اور اولیاء وصالحین کے پکارنے میں کوئی فرق ہے ؟

اس نے کہا : ہاں‘عدم فرق کے اعتراف میں جو چیز میرے لئے مانع ہے وہ یہ کہ پہلے کے مشرکین ایسے بتوں اورمورتیوں کوپوجتے تھے جنہیں وہ خود اپنے ہاتھوں سے بنا تے تھے اور ان کا اﷲ کے یہاں کوئی وزن نہیں تھا جبکہ ( یہ لوگ جنہیں آپ قبر پرست کہتے ہیں) ولیوں کو پکارتے ہیں اورایسے بزرگوں سے فریاد کرتے ہیں جن کا اﷲ کی نگاہ میں ایک مقام اور مرتبہ ہے جیساکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے: ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ [یونس:۶۲]

’’یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں‘‘ ۔

معلوم ہواکہ ان پتھروں اور بتوں کو جنہیں مشرکین معبود بنا کر پوجتے تھے اور ان ولیوں اور بزرگوں کے درمیان جن کو لوگ صرف و سیلہ اورذریعہ بناتے ہیں اور ان کے معبود ہونے کا قطعادعویٰ نہیں کرتے بڑا فرق ہے ۔

میں نے عرض کیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی جب مجھے لگا کہ تم اس ڈگر پر چل پڑے ہو جو حق کی معرفت اور درستگی تک تمہاری رسائی کرادے گا مگر بصد افسوس آپ تو پلٹ کر نئے سرے سے پھر کیچڑ میں جا گرے اور اس راہ کو اپنا بیٹھے جو منحرف اورپرپیچ ہو جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری گفتگو ایک خالی حلقہ میں گھو متی رہے گی اس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہوگابلکہ وہیں پر پہونچا کرے گی جہاں سے شروع ہوئی تھی اور وہیں سے شروع ہوا کریگی جہاں پر ختم ہوئی تھی۔

تم نے دونوں فریوں کے درمیان جو یہ فرق بیان کیا ہے وہ انتہائی احمقانہ‘نا سمجھی اور کوتاہ فہمی پرمبنی ہے اور تمہاری یہ دلیل اس قدر کمزور اور بودی ہے کہ غور وفکر کے قابل ہی نہیں چہ جائیکہ اس کو قبول کیا جائے ۔

جمہور امت کے یہاں یہ بات معروف اور مشہور ہے۔ جیسا کہ یہ ایک مسلمہ قاعدہ بھی ہے ۔عبادت کے ساتھ غیر اﷲ کی جانب متوجہ ہونا ۔ خواہ وہ عبادت جس قسم کی بھی ہو۔ اﷲ کے ساتھ کفراور شرک ہے جو اپنے کرنے والے کو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔

چاہے وہ شخص جس کی جانب عبادت کے ساتھ متوجہ ہو اگیا ہے وہ اﷲ کی جانب سے بھیجا ہوا کوئی نبی ہو یا مقرب ترین فرشتہ ہو یا کوئی نیک ولی ہو یا گونگا پتھر یا پھرکوئی سر کش شیطان ہو ‘یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں مسلمانوں کے نزدیک کوئی دو رائے نہیں ہے ۔

اور بلاشبہ تم بھی دوران گفتگو اس بات کا اعتراف کر چکے ہو کہ دعا ‘قربانی ‘نذر و نیاز‘طواف یہ سب عبادت کی جنس سے ہیں ۔

اس کے باوجود بتوں اورمورتیوں کی پوجا کوکفر وشرک سے تعبیر کرنا اور یہی چیزیں جب قبروں میں مدفون ولیوں کے لئے انجام دی جائیں تو اسے عبادت اور شرک نہ قرارر دینا تکلف وجانب داری اورجادہ حق سے قصدا انحراف کی ناکام کوشش ا ور ایک ایسی حقیقت کا کھلا انکار ہے جو مانندآفتاب وماہتاب بالکل روشن وتاباں ہے۔

تمہاری اس تفریق پر قرآن کریم یا مستند حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی تائید کسی عقلی دلیل ہی سے ہو رہی ہے بلکہ یہ مجردکبر ونخوت کے حاملین کی گھسی پٹی باتیں ہیں جس کے بارے میں میرا یہ گمان نہیں تھاکہ۔ اس طویل مناقشہ کے بعدبھی۔ تم اس کے اسیر رہو گے یا اس کی بھینٹ چڑھ جاؤ گے۔

اس نے جواب دیا کہ میں نہ تو کبر وغرور کا اسیر ہوں اور نہ ہی انا کا شکار ‘مجھے بھی آپ ہی کی طرح اپنی رائے اور عقیدہ کو بیان کرنے کا پورا حق ہے چونکہ میں ان باتوں کو اب بھی درست مانتا ہوں اس ناطے اس کا قائل ہوں ‘ اور دیکھئے ہم دونوں گفتگو کے آغاز ہی میں اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہم بحث و مباحثہ کھل کر کریں گے اور اس میں جانبداری کے شکار نہیں ہونگے بلکہ پوری صراحت کے ساتھ بلا کسی ہچکچاہٹ ہماری گفتگو ہوگی اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ جذباتی نہ بنیں اور مجھے پو ری آزادی کے ساتھ اپنی بات کہنے دیں البتہ اگر آپ کو میری پیش کی ہوئی باتوں میں سے کسی پراعترا ض ہے تو آپ کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ مدلل انداز سے اس کا رد کریں اور اسے باطل قرار دیں لیکن جھجھلاہٹ اور جارحانہ گفتگوسے احتراز کریں کیونکہ یہ چیزیں مناقشہ کے لئے مضر ہوتی ہیں اور پھر جس مقصد کے لئے ہم نے مناقشہ کیا ہے وہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔

میں نے اس سے کہا :میں تمہاری اس بات سے متفق ہوں کہ بحث ومباحثہ کے دوران انفعالیت اور سخت کلامی مقصود تک پہونچنے میں رکاوٹ بنتی ہے ۔

میں اس بات کی کوشش کروں گا کہ جن چیزوں کو میں گمرہی تصور کرتا ہوں اس سے تمہیں چھٹکارا دلا سکوں ۔

پہلے کے لوگ اولیاء اور صالحین کی عبادت کرنے ہی کی بنا پر مشرک قرار دئیے گئے چونکہ آپ اب بھی اپنی اسی بات پربضدہیں کہ مذکورہ دونوں فریق میں ازروئے حکم امتیاز برتا جائے گا اور اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ آپ کی دلیل یا سچ کہئے توآپ کا شبہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانہ کے مشرکین ازخودپتھروں سے بت اور مورتیاں تراشتے تھے اور پھر ان کی عبادت کے ذریعہ اﷲ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے جب کہ آج کے دور کے قبر پرست صرف اولیاء اور بزرگان دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘ نہ کہ بتوں اور مورتیوں کی طرف ۔تمہارے اس کمزور شبہ کودور کرنے کے لئے میں تیار ہوں اور میں یہ ثابت کروں گا کہ پہلے کے مشرکین کا حال آج کے دور کے قبر پرستوں سے کچھ بھی مختلف نہیں تھاکیونکہ وہ بھی ان ہی کی طرح قربانی، نذرونیاز، طواف اور دعا وغیرہ کو انہیں ولیوں اور بزرگوں کے لئے ر وا رکھتے تھے جن کے با رے میں ان کا یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ انتہائی نیک اور صالح لوگ ہیں اور وہ لوگ بھی ۔حقیقت امر۔ میں ولیوں اور نیک بزرگوں کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔

وہ بالذات بتوں اور مورتیوں کو نہیں پوجتے تھے بلکہ ان شخصیتوں کو پوجتے تھے جن کے ناموں سے مجسمے ‘بت اور مو رتیاں منسوب ہوتیں اوربنائی جاتی تھیں جیسے (یغوث‘یعوق‘ود‘ نسر‘ سواع‘ لات‘عزی)

باقی رہی دلیل اس بات کی کہ زمانہ قدیم کے مشرکین بھی آج کے قبر پرستو ں کے مانند ولیوں اور بزرگوں کو پوجتے اور اﷲ کو چھوڑ کر ان کو معبود بناتے تھے تواس کی بھی دلیل قرآن کریم میں موجود ہے مگر اس کی طرف تمہاری رہنمائی نہیں ہو پاتی اﷲتبارک وتعالیٰ نے ان سبھوں کو اپنے اس قول میں مخاطب کیا ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾[الاعراف : ۱۹۴]

’’واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو‘‘۔

﴿مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ [العنکبوت :۴۱]

’’جن لوگو ں کو اﷲ تعالیٰ کے سوا اور کار ساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے ‘ حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے‘کاش وہ جان لیتے ‘‘۔

پھر سبھوں کے لئے عبادت کے سلسلے میں ایک عام قاعدہ زمان ومکان کی قید کے بغیر ان لفظوں میں بیان کردیا :

﴿أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ [الزمر:۳ ]

’’خبر دار اﷲتعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ(بزرگ)اﷲکی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسا ئی کر ا دیں‘‘۔

﴿قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ [الرعد:۱۶ ]

’’کہہ دیجئے کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے‘‘ ۔

﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾ [الکہف:۱۰۲]

’’کیا کافر یہ خیال کئے بیٹھے ہیں؟کہ میرے سوا وہ میرے بندوں کو اپناحمایتی بنا لیں گے ؟(سنو)ہم نے تو ان کفار کی مہمانی کے لئے جہنم کو تیار کر رکھا ہے‘‘ ۔

﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّـهُ هُوَ الْوَلِيُّ﴾ [الشوریٰ:۹]

’’کیاان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا اور کار ساز بنا لئے ہیں (حقیقتاتو) اﷲ تعالیٰ ہی کار ساز ہے‘‘۔

﴿قُلْ أَغَيْرَ اللَّـهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ [الأنعام:۱۴] ’’آپ کہئے کہ کیا اﷲ کے سوا ‘جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور کسی کو معبود قرار دوں‘‘۔

مذکورہ آیات سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پہلے کے مشرکین ہو بہو آج کے قبر پرستوں کی طرح ولیوں او بزرگوں کو پکارا کرتے تھے اور انہیں میں سے کچھ کو معبود بنا کر ان کی پوجا دعا ‘قربانی ‘نذر‘طواف‘ خوف ‘ امیدوغیرہ کے ذریعہ شروع کر دیتے تھے تاکہ یہ لوگ ان کے حق میں اﷲ سے سفارش کردیں اور اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ان کی رسائی کرا دیں ۔

 مشرکین بالذات بتوں کو نہیں پوجتے تھے :

بلا شبہ مورتیا ں ‘بت ‘مجسمے اور اوثان جیسے(لات‘عزی‘مناۃ‘ یغوث‘یعوق ‘نسر) یہ تمام کے تمام اپنے نام کے حامل ولیوں اور بزرگوں کی نمائندگی کرتے تھے لہٰذا پہلے کے مشرکین بالذات ان بتوں اور مجسموں کو نہیں بلکہ ان میں کارفرما شخصیتوں کو پوجتے تھے جن سے ان کو کسی خیر کی امیدہوتی تھی اور ان کے بارے میں صالح اور ولی ہونے کا ان کا گمان ہوتا تھا اور یہ چیزیں صرف بطور نشانی ان کے ناموں پر رکھ لیتے تھے جیسا کہ آج کے دور کے قبر پرست کیا کرتے ہیں۔

مذکورہ وضاحت سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ دونوں فریق قبر پرست اور پہلے کے مشرک ولیوں کی عبادت کرنے میں مساوی اوریکساں ہیں دونوں کے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ مشرکین اپنے ولیوں کے نام سے منسوب بتوں اور مجسموں کے ارد گرد ڈیرے ڈالتے ‘چکر لگاتے اور ان کا قصد اور توجہ کرتے تھے جبکہ آج کے قبر پرست ان قبروں‘تابوتوں‘ قبوں اور مزاروں کے ا رد گر د ڈیرے ڈالتے ہیں جو ان کے اولیاء کے نام پر بنے ہوتے ہیں۔توجہ ‘قصد وارادہ ‘حاجت روائی وغیرہ کا اصل مرکز یہ بت‘ مورتیاں‘مجسمے‘ قبریں‘ تابوت ،مشاہد ومزارات وغیرہ نہیں ہیں بلکہ وہ بزرگ اور ولی ہوتے ہیں جن کے نام اور علامت اور رمز کے طور پر یہ بت‘ مورتیاں‘ قبریں اورتابوت بنائے گئے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ کسی ایسے قبرپرست سے جو کہ بدوی کے مزار سے واپس آرہا ہو پوچھیں آپ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟تو وہ آپ کو ضرور یہی جواب دے گا کہ خواجہ بدوی کی خدمت میں حاضری دے کر آرہا ہوں جبکہ ۔حقیقت میں ۔ اس نے کبھی نہ تو بدوی کو دیکھاہے اور نہ ہی ان سے اس کی کوئی ملاقا ت ثابت ہے وہ محض ان کی قبر یا اس تابوت کے پاس سے واپس آ رہا ہے جو ان کے نام پر بنایا گیا ہے ‘ بعینہ یہی چیز زمانہ قدیم کے مشرکین کے یہاں تھی وہ بھی ۔حقیقت میں۔ (بالذات لات‘ یغوث ‘یعوق) سے ملنے نہیں بلکہ ان بتوں‘مجسموں اور مورتیوں کی زیارت کے لئے جاتے تھے جو ان اولیاء کے نام سے بنی ہوئی تھیں یا ان لوگوں کے نام سے بنی ہوئی تھیں جن کو یہ ولی خیال کرتے تھے۔

 بتوں کو نیک لوگوں کے نام پرنصب کیا جاتا تھا :

اس نے کہا :تم نے اس بات کی دلیل کہاں سے دریافت کر لی کہ پہلے کے مشرکین بالذات پتھر‘ سونا ‘پیتل کے بنے بتوں مورتیوں اور مجسموں کی نہیں بلکہ ان ولیوں اور بزرگوں کی عبادت کرتے تھے جن کے نام پریہ چیزیں نصب ہوتی تھیں ؟

میں نے اس سے کہا: جہاں تک بات رہی قطعی دلیل کی تو آپ اسے قرآن کی ان گزشتہ آیتوں سے ۔اگر آپ کو توفیق مل جاتی ۔ سمجھ سکتے تھے جن کو بحث کے دوران میں آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں اور جو کسی ادنیٰ شک کی گنجائش چھوڑے بغیر یہ ثابت کرتی ہیں کہ زمانہ قدیم کے مشرکین اولیاء اور بزرگوں ہی کی عبادت کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی مزید ابلاغ اور اتمام حجت نیزہر اس شبہ کے ازالہ کے خاطرجو تمہیں لاحق رہ سکتاہے یا تم اس کے پاس تھوڑاساٹھہرسکتے ہوانشاء اﷲ میں مزید ایسی دلیلیں ذکر کروں گا جس سے ہماری باتوں کی پوری تائید ہوگی اور اس آخری شبہ تک کی دھجیاں اڑا دینگی جس سے تم اپنی رائے پر اڑے رہنے کے لئے چمٹے رہ سکتے ہو ۔

 یغوث ‘یعوق اور نسرقوم نوح کے نیک لوگ تھے:

(۱) بخاری نے ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں :نوح کی قوم میں جو بت پوجے جاتے تھے اخیر میں وہ عرب لوگوں میں آگئے (ود) قبیلہ بنو کلب کا بت تھا (دومۃ الجندل) میں اور (سواع) قبیلہ ہذیل کا بت تھا اور (یغوث) پہلے قبیلہ مراد والوں کا بت تھا پھر آگے چل کر بنی غطیف کا ہوگیا جو (حوف یا جر ف) نامی جگہ پر ملک سبأمیں آباد تھے۔

اور( یعوق) قبیلہ ہمدان کا بت تھا ‘اور (نسر)قبیلہ حمیر کا بت تھا جسے خاص کر ذی الکلاع کی اولاد پوجتی تھی یہ سب چند نیک بخت شخصوں کے نام ہیں جو نوح کی قوم میں تھے جب وہ وفات پاگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے لوگوں کے دل میں یہ شوشہ ڈالا کہ جن مجلسوں(خانقاہوں) میں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں یاد گار کے طور پران کے نام کے بت بنا کر کھڑے کر دو انہوں نے ایسا ہی کیا ( یعنی صرف یاد گار کے لئے بت رکھے ) ان کی پوجا نہیں کی لیکن جب یہ یاد گاربنا نے والے بھی رفتہ رفتہ انتقال کرگئے اور بعد کی نسلوں کو یہ شعور نہ رہا کہ ان بتوں کو صرف یاد گار کے لئے بنایا گیا تھا تو ان کو پوجنے بھی لگ گئے (صحیح بخاری/التفسیر:۴۹۲۰)

(۲)ابن عباس ہی کے قول کے بمثل کلبی اپنی کتاب (الأصنام) کے صفحہ۵۲پر یوں رقمطراز ہے :’’پھر تیسری نسل آئی اس وقت لوگوں نے یہ خیال ظاہرکیا کہ ہمارے اسلاف نے ان بزرگوں کی تعظیم وتکریم صرف اس امید پر کی کہ یہ لوگ اﷲ کے یہاں ان کے حق میں سفارشی ہونگے اس طرح یہ لوگ ان کوپوجنے لگے ‘‘۔

(۳)اورمحمد بن کعب (ود ‘سواع‘ یغوث‘یعوق اور نسر)کے بارے میں ان لفظوں میں اظہار خیال فرماتے ہیں : یہ سب قوم کے چند نیک بخت شخصوں کے نام ہیں جو آدم اورنوح علیہم السلام کی درمیانی مدت میں اس دنیا میں تشریف لائے جب یہ لوگ وفات پاگئے تو اپنے پیچھے کچھ ایسے متبعین کو چھوڑا جو انہیں کی اقتداء کرتے اور انہیں کے طریقے پر چلتے اورہو بہو عبادت میں انہیں کی نقالی کرتے تھے ‘ایک دن ابلیس ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ پر فریب مشورہ دیا :آپ لوگ ا گر ان بزرگو ں کے مجسمے کھڑے کر لیں تو یہ چیزتمہارے لئے عبادت میں زیادہ پر شوق اور چاشنی کا باعث ہوگی ‘ ابلیس کے دام فریب میں آکر انہوں نے یہ کام انجام دے ڈالا ان کے بعد پھر دوسری نسل آئی اور ابلیس نے ان کو یہ کہہ کر مغالطہ میں ڈالا کہ تمہاری پیش رو ان کی عبادت کیاکرتے تھے پھر یہ لوگ بھی ان کو پوجنے لگے‘‘۔

اب تک کی گفتگو سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ غیراﷲ کی جس پرستش کی بنیاد پراﷲ تعالیٰ نے پہلے کے لوگوں کو مشر ک گردانا اور ان کی سرزنش کی وہ دعا ‘قربانی ‘نذر‘ طواف‘ خوف ‘اورامید وابستہ کرنا ان بتوں اور مورتیوں سے جو ولیوں اور بزرگوں کے نام سے منسوب تھیں ۔

 بتوں کی پوجا کب سے شروع ہوئی ؟

یہی وہ اسباب تھے جو بتوں کی عبادت کے سلسلے میں پیش خیمہ ثابت ہوئے چونکہ یہ مجسمے مسلم قوم کے چنیدہ بزرگوں کی یاد میں نصب کئے گئے تھے اس لئے ان کو انہیں کے ناموں پرموسوم کیا گیا ۔

ابن جریر نے محمد بن قیس سے روایت کرتے ہوئے ان کا یہ قول نقل کیا ہے : ’’ یہ سب قوم کے چنیدہ بزرگ تھے جو آدم اورنوح علیہم السلام کی درمیانی مدت میں اس دنیا میں تشریف لائے ان کے کچھ پیرو کار بھی تھے جو ہو بہو نیک اعمال میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے یکایک ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگرہم ان بزرگو ں کے مجسمے کھڑے کر لیں تو یہ چیز ہمارے لئے عبادت میں زیادہ رغبت اور شوق کاباعث ہوگی پھر انہوں نے ان کے ناموں کے بت نصب کر دئے ‘‘۔

بت پرستی کے آغاز کے سلسلے میں لگ بھگ کچھ اسی طرح کا خیال عکرمہ ‘ ضحاک ‘قتادہ اور ابن اسحاق کا بھی ہے۔

 لات ا یک آدمی تھا جو حاجیوں کے لئے ستوگھولتا تھا:

(۴)لات نامی بت کے تعلق سے امام بخاری نے ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ ’’زمانہ جاہلیت میں لات نام کا ایک آدمی تھا جو حاجیوں کے لئے ستوگھولتا تھا‘‘ ابن الکلبی کا بیان اس کی کتاب (الاصنام)صفحہ۱۶ میں درج ہے کہ لات بت طائف میں نصب تھا ‘وہ مناۃ سے نیا تھا اور وہ ایک چوکور مضبوط بھاری پتھر تھا ‘ اس کے پاس ایک یہودی ستو گوندھا کرتا تھا ‘ یہ ابن عباس کے قول کے قریب تر ہے ۔

(۵)امام شہرستانی ۔صاحب کتاب((الملل وا لنحل))فرماتے ہیں: ’’کہ بتوں کا جہاں کہیں مقدر ہوا رکھ دینا وہ کسی نہ کسی ایسے معبود کے نام پر ہوتا ہے جو با حیات ہو مگر غائب ہو تا کہ اس کی شکل وصورت اور ہیئت وقالب پر بنایا گیا بت اس کا نائب اور قائم مقام ہو سکے ورنہ یہ بات بدیہی طور پر ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی عقل مند اپنے ہی ہاتھ سے کوئی مجسمہ یا صورت تراش کر اس کے معبودہونے کا اعتقاد یوں نہیں رکھے گا ‘‘۔ (الملل وا لنحل ۳/۲۵۱‘ ۲۵۲بحوالہ حاشیہ الفصل لابن حزم )

مگر جب قوم کے لوگوں نے اﷲ کی جانب سے بلا کسی اجازت اور حجت وبرہان کے کسی مجسمے کی طرف توجہ یا رخ کر کے کھڑے رہنے کی ٹھان لی اور اپنی ضروریات کو ان سے باندھ لیا،ان کی طرف متوجہ ہونے لگے تو ان کا یہی عکوف ان معبودوں کے لئے ان کی عبادت ہوگیا نیز ان سے اپنی ضروریات طلب کرنا ان کے الٰہ اور معبود ہونے کا ثبوت بن گیا اسی سلسلے میں ان کا یہ قول ہے : ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ [ الزمر:۳]

’’ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بز رگ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘ ۔

کیا اس کے بعدبھی تمہارے پاس اس مسئلہ میں شک کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ بتوں کو کچھ ایسے لوگوں کے ناموں پرہی نصب کیا گیا تھا جن کے بارے میں ان کی قوم کا اعتقاد تھا کہ وہ بڑے نیک تھے لہٰذا وہ ان سے محبت کرتے تھے اور یہ کہ بذات خود ان بتوں کی عبادت نہ کی گئی بلکہ ان بزرگوں کی عبادت کے ضمن میں کی گئی جن کے ناموں پر ان کو نصب کیا گیا تھا ۔

 ایک قبر پرست کا ایک بڑا شبہ اور اس کا ازالہ:

اس نے کہا ۔اور اس کے چہرے پر اعتراف اور رضا مندی کے آثار میری وضاحت اورپیش کردہ باتوں کے سلسلے میں نمایاں تھے۔:لیکن ابھی بھی اس معاملہ میں بہت سارے اشکالات اس کے یہاں موجود تھے۔

میں نے ا س سے عرض کیا : تم اپنے اشکا ل کو ایک ایک کرکے ہمارے سامنے واضح کرو انشاء اﷲ تمہارے تمام شبہات کاجواب دے کر میں تمہیں مطمئن کرنے کی پوری کوشش کروں گا ۔

اس نے کہا :آپ نے قرآنی آیا ت اور متعددآثارکوپیش کرکے یہ بات ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ زمانہ قدیم کے مشرکین بھی اولیاء اور صالحین کو پوجتے تھے تاکہ علی سبیل القیاس آپ یہ بھی ثابت کر سکیں کہ قبوری۔ تمہاری اصطلاح میں۔ اسی طرح اولیاء اور صالحین کو پوجتے ہیں۔

لیکن جن آیتوں کو آپ نے بطور دلیل پیش کیاہے ان میں یہ کہا گیا ہے کہ مشرکین بالذات انہیں بتوں کی حقیقی پو جا کیا کرتے تھے کیونکہ اگر وہ صرف ان ولیوں اور بزرگوں کو پوجتے جن کے نام سے یہ بت موسوم تھے تو ضرور اﷲ تبارک وتعالیٰ اس بات کو ہمارے لئے بیان کرتا اوراگر وہ مشرکین صرف اولیاء کی عبادت کرتے تھے اور اپنے لئے سفارش کے سلسلے میں ان بتوں پر بھروسہ نہیں کرتے توقرآن مجید میں مشرکین کے لئے ڈانٹ اور پھٹکار ولیوں کے پوجنے تک محصور ہوتی لیکن قرآنی آیات اس کے بر عکس بیان کرتی ہیں کیونکہ تمام زجر وتوبیخ جو ان مشرکوں کے لئے اس مو ضوع کے تعلق سے قرآن مجید کے اندرآئی ہوئی ہیں تقریباسب کے سب بتوں‘مورتیوں اور استھانوں وغیرہ کی عبادت سے ان کو منع کرنے پر مرکوز تھیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے:﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾ [الحج :30]

’’پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے‘‘۔

﴿إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا﴾[العنکبوت:۱۷] ’’تم تو اﷲ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو‘‘ ۔

﴿وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ [العنکبوت:۲۵]

’’حضرت ابراہیم( علیہ السلام )نے کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اﷲ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے‘‘۔

﴿فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ﴾ [الاعراف:۱۳۸]

’’پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے‘‘ ۔ ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ﴾[ابراہیم: ۳۵]

’’(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو)جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پرور دگار اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے‘]۔

﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً﴾ (الأنعام:۷۴) ’’اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے فرمایا کہ کیا توبتوں کو معبود قرار دیتا ہے ؟‘‘۔

﴿قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ﴾[الشعراء:۷۱]

’’انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی ‘ ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں‘‘ ۔

﴿وَتَاللَّـهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ﴾[الأنبیاء:۵۷ ]

’’اور اﷲ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا ‘‘۔

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ﴾[الأنبیاء: ۵۱۔۵۲]

’’یقیناًہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے ۔ جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاوور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں‘‘۔

یہ آیات ان بے شمار آیات میں سے چند ہیں جو اس بات پر روشنی ڈال رہی ہیں کہ مشرکین بالذات بتوں اور مورتیوں کوپوجتے تھے اور اسی بنا پر صراحت کے ساتھ قرآن حکیم میں بتوں اور مورتیوں کو پوجنے سے روکا گیا اور اسی طرح یہ ممانعت شامل ہے و لیوں کو بھی بالذات پوجنے سے ۔

 بتوں کی پوجا در اصل ولیوں کی پوجا ہے

میں نے اس سے عرض کیا : ہاں بتوں کی پوجااور اولیاء کی پرستش دونوں کا انکار ثابت ہوتا ہے‘ اور یہی چیزپوری صراحت سے قبو ریوں کو غیر اﷲ کی عبادت کرنے کا قصور وار بھی ٹھہراتی ہے کیونکہ وہ اولیاء کی عبادت کرتے ہیں۔

قرآن حکیم میں اگر صرف غیر اﷲ کی عبادت سے ممانعت آئی ہوتی اور اس کے ساتھ ولیوں کو چھوڑ کر صرف بتوں کا تذکرہ ہوتا تب بھی ہم ان قبر پرستوں کو ولیوں کا پجاری قرار دیتے کیونکہ یہ اولیاء بھی تو غیر اﷲ ہی ہیں اور ان کی طرف قبر پرست بعینہ وہی عبادتیں لیکر متوجہ ہوتے ہیں جو کفار لے کر اپنے بتوں کا رخ کرتے ہیں جیسے(دعا ‘ قربانی ‘ نذر خوف اور رجا ) لیکن یہ تو اس مفروضہ کی صورت میں ہے کہ مشرکین صرف پتھر‘ پیتل ‘سونا اور دیگر جمادات کے بنے ہوئے بتوں کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے ۔

جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ مشرکین بالذات ولیوں اور بزرگوں کو پوجتے تھے اوربذات خود ان بتوں مورتیوں اور مجسموں کو نہیں کیونکہ ان کی عبادت در اصل ان حقیقی معبودوں کے تابع تھی جو ان کی قوم کے ا ولیاء اور نیک اور صالح لوگوں میں سے ان کے معبود تھے اور ان کے ناموں سے انہوں نے ان بتوں مورتیوں اور مجسموں کو موسوم کر رکھا تھا ‘اور یہ بات میں تم سے اس سے پہلے بھی دلائل قطعیہ کی روشنی میں بیان کر چکا ہوں۔

اسی ناطے اﷲ تعالیٰ کبھی انہیں بتوں کا پجا ری اور کبھی ولیوں کا پجاری کہہ کر مخاطب کرتاہے ‘پس وہ بت پرست ہیں کیونکہ وہ بتوں کے ارد گرد چکر کاٹتے ‘ طواف اور گھیر ے ڈالتے ہیں ساتھ ہی ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے نام پربہت سے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور وہ اولیاء پرست بھی ہیں کیونکہ ان بتوں کو پکارنے سے ان کی مراد ان اصل ولیوں کو پکار ناہوتا ہے جن سے یہ اپنی مرادیں طلب کرتے ہیں اور جن کو اﷲ کے یہاں سفارشی اور واسطہ مانتے ہیں جبکہ اﷲ نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی ہے ۔بعینہ یہی حال آج کے دور کے قبر پرستوں کا بھی ہے وہ آستانوں اور مزاروں کے پردوں کو چومتے چاٹتے ہیں اس کے ارد گرد طواف کرتے ہیں ‘مردوں کی قبروں پر قبہ بنواتے ہیں اوراس کو خوب خوب مزین کرتے ہیں اور اس پرچڑھاوے چڑھاتے ہیں اس طرح وہ لوگ واضح طور پر قبرپر ست ہیں اور ضمنی طور پر ا ولیاء پرست ۔

پھر یہ کہ وہ آستانوں کا طواف کرتے ہوئے اس میں مدفون شخص کو پکارتے ہیں ان سے مدد اور فریاد طلب کرتے ہیں اس کی دہائی دیتے ہیں لہٰذا وہ واضح طور پر ا ولیاء پرست اور ضمنی طور پر قبر پرست قرار پائیں گے۔

اگر آپ ان کو قبر پرست کہیں تو حق بجانب کیو نکہ وہ قبروں کے ساتھ پرستش کا معاملہ کرتے ہیں اور اگر آپ ان کو اولیاء پرست قرار دیں تب بھی حق بجانب ہونگے کیونکہ وہ عبا دت کی چیزیں اولیاء کے لئے بھی روا رکھتے ہیں مثلا دعا‘ نذر‘ قسم ‘ خوف وامید‘ وغیرہ ۔مذکورہ دونوں حالتوں میں وہ شرک اکبر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اوراگر آپ انہیں توہم اور خواہش پرست کہیں تو بھی حق بجانب ہوں گے کیونکہ قبر پوجنے والا شخص بلا شبہ اپنی خواہش نفس میں مبتلا ہوکرگمراہ اور اس کا غلام ہو جاتا ہے ‘اسی طرح قبر پرست قبر میں مدفون شخص کاتصور کرکے اس کے لئے وہ سب کچھ کرتا ہے جو کچھ اس کی خواہشات کہتی ہے ۔

(۱)غور فرمائیں استاذ عبد الرحمٰن وکیل نے اپنی کتاب (دعوۃ الحق صفحہ۶۲) میں مزیدکیا فرمایا ہے :

 مشرکین کے معبودوں سے متعلق من وما(کون اور کیا)کا استعمال اور اس کی تحقیق:

ان معبودوں کے تعلق سے قرآن کا ایک ہی واقعہ میں کہیں (من)اور کہیں (ما) استعمال کرنے کا راز یہی ہے ۔

یا ایک ہی واقعہ میں دو الگ الگ الفاظ جن میں سے ایک کی دلالت عاقل پر اور دوسرے کی دلالت غیر عاقل پر ہے استعمال کرنے کی وجہ یہی ہے ۔

چنانچہ لفظ’’ ما‘‘ جو غیر عاقل کے لئے ہے اس کے ذریعہ تعبیر لائی گئی تو اس سے مراد وہ مورتیاں اور بت ہیں جو ولیو ں کے نام پرنصب کئے گئے ہیں(۱‘۲) ([3] (

اور دونوں تعبیریں ایک دوسرے سے صرف اسی معنیٰ میں مختلف ہیں ورنہ دونوں کی دلالت اس ( غیر )پر ہوتی ہے جس کی عبادت اﷲ کے سوا کی جائے ۔

معلوم ہوا کہ (من )کے ذریعہ جب تعبیر ہو تو بالذات اولیاء مراد ہوں گے اور جب (ما) کے ذریعہ خطاب ہو تو وہاں پر خاص طور سے بت یا قبریں مراد ہوں گی جو ولیوں کے نام سے وجود میں آئی ہیں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ [الاحقاف:۵]

’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟جو اﷲ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں‘‘ ۔

اوراسی سورۃ میں اس سے قبل والی آیت میں’’ما‘‘کا استعمال ہوا ہے۔ اﷲ فرماتا ہے : ﴿قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ﴾ [ الاحقاف:4]

’’آپ کہہ دیجئے بھلا دیکھو تو جنہیں تم اﷲ کے سوا پکا رتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے‘‘۔

غور فرمائیں ان دونوں آیتوں میں ایک ہی چیز کے لئے ’’من ‘‘ اور ’’ما‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

پس تمہیں قبر پرست حق کو باطل سے گڈ مڈ کر کے دھوکے میں نہ ڈال دیں ‘ ان کا یہ خیال ہے کہ جاہلیت کے شرک کا اصل سبب بتوں کو پکارنا تھا کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں( ما) کے ذریعہ بیان فرمایا ہے جو غیر عاقل کے لئے ہے جبکہ ہم بتوں کو نہیں بلکہ ولیوں کو پکارتے ہیں ۔

اور تم قرآن حکیم کے ذریعہ (من اور ما )کے تعبیری راز سے آگاہ ہو چکے ہو او ر تم یہ بھی جان چکے ہو کہ بسا اوقات اﷲ تعالیٰ ایک ہی مقام پر (من اور ما ) دونوں سے تعبیر فرماتا ہے اور ایک کو دسرے کی جگہ استعمال کرتاہے جیسا کہ میں تم کو بتا چکا ۔

اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ﴾ [الشعراء: ۶۹۔ ۷۷]

’’انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنا دو جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی ‘ ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں ؟یا تمہیں نفع نقصان بھی پہونچا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا یہ(ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تواپنے باپ د اداوں کو اسی طرح کرتے پایا،آپ نے فرمایا کچھ بھی خبر ہے جنہیں تم پوج رہے ہو ؟ تم اورر تمہارے اگلے باپ دادا‘وہ سب میرے دشمن ہیں بجز سچے اﷲ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے‘‘۔

غور فرمائیں انہوں نے جب اپنی تعبیر میں(مؤنث کا صیغہ) ’’لھا‘‘استعمال کرتے ہوئے فرمایا:(نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ) ’’ہم تو بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور برابران کے مجاور بنے بیٹھے رہتے ہیں‘‘۔توفوراہی ابراہیم (علیہ السلام) نے(جمع مذکرکا صیغہ استعمال کرتے ہوئے ) فرمایا : (هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ)’’ کیا وہ تمہاری باتوں کوسنتے بھی ہیں ؟‘‘ تاکہ یہ بات جان لی جائے کہ اس سے( ابراہیم علیہ السلام )کا مقصودوہ لوگ تھے جن کے نام پر یہ بت نصب کئے گئے تھے‘اگر ایسانہ ہوتا توآپ ان سے(ھل تسمعکم )یعنی مؤنث کے صیغے کے ذریعہ خطاب فرماتے پھر آگے بھی انہوں نے مذکر کے صیغے استعمال کئے(أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ) ’’کچھ بھی خبر ہے جن لوگوں کو تم پوج رہے ہو ؟‘‘ اور اس کے بعد آپ نے فرمایا(فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ)’’وہ سب میرے دشمن ہیں بجز اﷲ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے‘‘۔

اس سے بھی تمہیں سمجھنا چاہئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصود بت اور جن کے نام پر یہ نصب کئے گئے تھے وہ سبھی تھے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ابراہیم(علیہ السلام) (فانہم)کے بجائے (فانہا )مؤنث کا صیغہ استعمال کرتے کیونکہ ’’ہم‘‘کی ضمیر عربی زبان میں عاقل یعنی (بنو آدم) کے لئے لائی جاتی ہے۔

اوراسی طرح اﷲ تعالیٰ ایک ہی قصہ کے ضمن میں وارد آیات میں کبھی مشرکین کے معبودوں کو ایسے لفظ سے ذکر کرتا ہے جو ذوی العقول (یعنی انسانوں ) کے لئے ہیں اور کبھی اس کے بر عکس بھی جیسا کہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مشرک ایک ولی کو پوجنے کے لئے کئی معبودوں کو پوجتا ہے کچھ بت کی شکل میں معبود ،کبھی کچھ قبروں کی شکل میں جو ولیوں کے نام پر وجود میں آئی ہیں، اور کچھ ان پردوں کی شکل میں جو اس کے ولی معبود کے مزار پر لٹک رہے ہوتے ہیں وغیرہ۔

گزشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جس کی بنیاد پراﷲ تعالیٰ نے ان کو من گھڑت معبودوں کے پجاری ‘ اﷲ کے ساتھ ساجھی دار اپنانے والے ‘مورتیوں ‘بتوں اور اسٹیچوؤں کے پجاری کے خطاب سے انہیں پکارا ۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ ساری کی ساری چیزیں ولیوں کی عبادت سے پیدا ہوئیں اور صالحین کی محبت میں غلو ہی وہ اصل فتنہ ہے جو شرک کے فروغ اور انتشار کا اصل سبب بنا ۔

اس لئے جب آپ مشرکوں کے معبو دوں کی بابت تعبیر میں اختلاف پائیں تو سمجھ لیں کہ در اصل اس کی وجہ اعتبارات کا اختلاف تھا ورنہ چیز تو ایک ہی تھی جس کی تعبیر مختلف پیرائے سے کی گئی ‘رہی یہ بات کہ وہ کون کون سے اعتبارات تھے جن کے باعث معبودان باطلہ کے ناموں میں اختلاف آیا تو اس کے لئے بھی استاذ عبد الر حمٰن وکیل کی کتاب (دعوۃالحق) میں ان کادرج ذیل کلام ملاحظہ فرمائیں ،موصوف فرماتے ہیں : ’’مشرکین جس کی عبادت کرتے ہیں اس کوکبھی (ولی)کی صفت سے موصوف کیا گیا اس اعتبار سے کہ لوگ دعا وغیرہ کے ساتھ اس کو لازم پکڑ تے تھے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی اصلی وصف ہے بھی، اور کبھی اس کو(شریک)کہاگیااس اعتبار سے کہ لوگوں نے اس کو اﷲ کے ساتھ عبادت میں شریک کر دیا ،اور کبھی اسے(الہ)کہا گیا اس اعتبار سے کہ لوگوں نے وہ ساری چیزیں اس کے لئے روا رکھیں جو معبود حقیقی کے لئے ہونی چاہئے تھیں مثلا :عبادت ،خوف اور گبھراہٹ کی حالت میں اس کی پناہ میں آنا اور اس سے مدد کی فریاد کرنا،اور کبھی اسے(بت)اور (مورت)اور (مجسمہ)سے موصوف کیا گیا عین واقع کودیکھ کر یا ان چیزوں کو دیکھ کر جو ولیوں کے نام پر بنا ئی گئی ہیں، اس کو (طاغوت) کے وصف سے بھی متصف کیا گیا اس اعتبار سے کہ اسی چیزنے انہیں بھٹکایا اور پھرانہوں نے اس کے ذریعہ دوسروں کو گمراہ کیا، اسے (شیطان) قراردیا کیا گیا اس اعتبار سے کہ وہی غیر اﷲ کی عبادت میں ڈالنے کامحرک ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :

﴿إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا﴾ [ النساء: ۱۱۷]

’’یہ تو اﷲ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور در اصل یہ صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں‘‘۔

غور فرمائیں ایک ہی آیت میں پہلے عورت اور پھرشیطان سے تعبیر کیا۔

اﷲ کے دوست ابراہیم (علیہ السلام)نے اپنے باپ سے عرض کیا :﴿يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ﴾[مریم: ۴۴]

’’میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں‘‘۔

اور کبھی اس کو(ظن) وہم بتایا اس اعتبار سے کہ لوگوں نے ان سے فائدہ اور نقصان کا گمان کیا ‘اورکبھی اس کو(ھوی)قرار دیااس اعتبار سے کہ انہوں نے اس کی عبادت خواہشات نفس میں پڑ کر کی اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾ [یونس: ۶۶]

’’اور جو لوگ اﷲ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کی عبادت کر رہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں ۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں اور محض اٹکلیں لگا رہے ہیں ‘‘

 ﴿إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ﴾[النجم:۲۳]

’’یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یقیناًان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے‘‘ ۔

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ [الجاثية:۲۳]

’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اﷲ نے اسے گمراہ کر دیا ہے‘‘۔

ان کے معبودوں کومجرد (اسماء) کہا گیا جن کے مسمیٰ کا وجود نہیں یہ تعبیر حقیقت کے اعتبار سے ہے کیو نکہ انہوں نے گرچہ ان کا نام ولی رکھ دیا لیکن حقیقت میں ولی تو صرف اﷲ ہے نہ کہ وہ ۔ اسی طرح ان کے معبودوں کو (شفعاء) یعنی سفارشی کہا گیاجب کہ شفاعت کا حامل صرف اﷲ تعالیٰ ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ﴾ [یوسف:۴۰]

’’اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جن کو تمہارے باپ داداؤ ں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں اﷲ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی‘‘ ۔ ہوشیار رہو تاکہ مشرکین اپنے معبودوں کے مختلف اوصاف بیان کر کے تمہیں کہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اس لئے کہ یہ سارے اوصاف ایک ہی موصوف کے ہیں جس کی یہ لوگ اﷲ کو چھوڑکر پرستش کرتے ہیں اسی طرح اختلاف تعبیر کے فتنہ سے بھی آگاہ رہو اس لئے کہ یہ مختلف تعبیریں ایک ہی چیز کی ہیں‘ اور اب آج کے دور کے مشرکین کے لئے کوئی یہ عذر لنگ پیش نہ کرے کہ زمانہ جاہلیت کے لو گ بتوں کی عبادت اور ان کو معبود سمجھنے کے ناطے مشرک قرار پائے جبکہ آج کے دور میں یہ لوگ صرف ولیوں کو پکارتے ہیں کیونکہ حق قرآنی بیانات سے مانندآفتاب اب اس قدرروشن و تاباں ہو چکا ہے کہ جب جب وہ حق پر غلبہ اور جیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ باطل کی تہ بتہ تاریکیوں کو کافورکردے گا۔

(طالبِ دُعا:abufaisalzia@yahoo.com)



[1]) )نوٹ: واضح رہے کہ اس کتاب  کی نشرواشاعت دفترتعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات،العیون۔احساء کی طرف سے سن ۱۴۲۶ہجری میں ہوچکی ہے،لیکن اسلام ہاؤس ڈاٹ کام شعبہ اردو کی طرف سے مترجم کی مکمل اجازت کے بعد نظرثانی کرکے افادہ عام کی غرض سے دوبارہ طباعت ونشرکیا جارہا ہے۔(ش۔ر)

[2]) ) بقیہ اسباب کا ذکر کتاب میں موجود نہیں شایددوران گفتگو ان کا ذکر ہوا ہو۔(م۔ر)      

[3]) ) (۱‘۲)دعوۃ الحق صفحہ۶۲