×
یہ کتابچہ جن وشیاطین سے گھر کی حفاظت سے متعلق مصنف حفظہ اللہ کی عمدہ شاہکار ہے, جس کے اندر قرآن وسنت کی روشنی میں نہایت سہل أسلوب میں پندرہ حفاظتی ذرائع واسباب کا تذکرہ کیا گیا ہے ,خاص طور سے صبح وشام کی دعائیں اورقرآن کریم کی تلاوت سے گھروںكو آباد کرنا ,جو شیاطین وجنات سے تحفظ کامضبوط قلعہ سمجھی جاتی ہیں.

    جن وشیاطین سے گھروں کی حفاظت کے ذرائع

    [الأُردية –اُردو Urdu]

    تالیف: شیخ؍وحید بن عبد السلام بالی۔حفظہ اللہ۔

    —™

    ترجمہ: ابوعدنان محمد طیّب بھواروی-حفظہ اللہ-

    نظرثانی وتنسیق: شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنیؔ

    ناشر: دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ،ریاض

    مملکتِ سعودی عرب

    تَحصِينُ البُيوتِ مِن الشَّياطِين والجِنّ

    [الأُردية –اُردو Urdu]

    تاليف: الشيخ/وحيد بن عبد السلام بالي-حفظه الله-

    —™

    ترجمة: أبوعدنان طيب بهواروي-حفظه الله-

    مراجعةوتنسيق: شفيق الرحمن ضياء الله المدني

    الناشر:مكتب توعية الجاليات بالربوة، الرياض

    المملكة العربية السعودية

    عرضِ ناشر

    بسم اللہ الرّحمن الرحیم

    زیرنظر کتابچہ''جن وشیاطین سے گھروں کی حفاظت کے ذرائع'' علامہ وحید بن عبد السلام بالی۔حفظہ اللہ۔ کی شاندار عربی تالیف(تحصین البیوت من الشیاطین والجن) کا اردو ترجمہ ہے جسے شعبۂ دعوت وارشاد،مجمعہ،القصیم کے اردو داعی مولانا ابوعدنان طیب بھواروی حفظہ اللہ نے سلیس اورآسان قالَب میں ڈھالا ہے۔ اس کتاب میں جن وشیاطین سے گھروں کی حفاظت وبچاؤ کےپندرہ شرعی ذرائع کو بیان کیا گیا ہے۔

    شعبۂ دعوت وارشاد،مجمعہ،القصیم کی طرف سے اس کتاب کے ترجمہ کی چند سال پہلے نشرواشاعت کی جاچکی ہے،لیکن کچھ املائی وطباعتی خامیاں تھیں،اور احادیث تشکیلات سے خالی تھیں،اور چونکہ یہ کتابچہ اپنے موضوع پر مختصر ہونے کے باوجود کافی اہم ہے،اور موجودہ دور میں مسلم سماج میں جن وشیاطین کی شرر انگیزیاں کا فی زوروں پر ہیں،اور لوگ ان سے حفاظت وبچاؤ کے سلسلے میں شرعی اورجائز وسائل کو نہیں اپناتے،اس لئے لوگوں کو جن وشیاطین کی حفاظت کے سلسلے میں شرعی وجائز اسباب کو اپنانے کی خاطراسلام ہاؤس ڈاٹ کام کےشعبۂ ترجمہ وتالیف نےاردو ترجمہ کا مراجعہ وتصحیح کرکے دوبارہ بہترین زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے ہدیہ قارئین کیا ہے۔

    ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے،والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے مغفر ت وسامانِ آخرت بنائے،اورکتاب کے مولّف،مترجم،مراجع،ناشر،اور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے۔آمین۔

    وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔

    (طالبِ دُعا:abufaisalzia@yahoo.com)

    بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

    مقدِّمہ

    إِنَّ الْحَمْدَ لله نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَهْديهِ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوْذُ بالله مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ الله فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ،وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إله إلا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ وَبَعْد:

    قارئین کرام! اللہ تبارک وتعا لىٰ نے ہمارے اوپر ایک فریضہ عائد کیا ہے جس سے اکثر لوگ غافل ہیں , واضح رہے کہ وہ فریضہ شیطان کی دشمنی ہے ,چنانچہ فرمان باری تعالىٰ ہے:

    ﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾[ الفاطر:35 ]

    ''شیطان تمہارا دشمن ہے اس لئے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔''[سورۂ فاطر:۳۵]

    لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے شیطان کو اپنا دوست , اپنا ہم نشیں وہم کلام اوررفیق سفر بنا رکھا ہے اس کے لیے اپنے گھروں کا دروازہ بلکہ اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول رکھا ہے ,علاوہ ازیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کے لیے اپنا دل کھول رکھا ہے کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ,اور اسکے منع کرنے سے رکتے ہیں ,یہاں تک کہ وہ انکا اللہ کے علاوہ معبود بنا ہوا ہے ,﴿أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾ [يــس:61]

    ''اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ شیطان کی پوجا پاٹ نہیں کروگے کیوں کہ وہ تمہارا کھلا ہو ا دشمن ہے ''۔[سورۂ یس:۶۱]

    یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ چند کلمات تحریر کئے کہ ایک مسلمان اپنے گھر کو اس خبیث دشمن شیطان مردود سے کیسے بچائے ,اس لئے کہ جب یہ خبیث گھر میں داخل ہوتا ہے تو فساد پھیلاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان نفاق وشقاق اورتفرقہ ڈالتا ہے ,اس طرح محبت عداوت میں , اوررحمت زحمت میں بدل جاتی ہے .

    اللہ تعالى ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو شیطان کے مکروفریب سے بچائے ,اے اللہ! تو ہی ہمارا کارساز اورمددگار ہے, اور تیرے ہی طرف بہترین ٹھکانہ ہے.

    وحید بن عبد السلام با لی

    مکہ مکرمہ 16/2/1410ھ

    شیطان سے بچاؤ کے حفاظتی ذرائع

    ۱-گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا

    حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے:

    (اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلِجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ باسْمِ اللَّهِ وَلجْنا، وباسْمِ اللَّهِ خَرَجْنا، وَعَلى اللَّهِ رَبِّنا تَوََكَّلْنا، ثُمَّ ليُسَلِّمْ على أهْلِهِ)

    '' اے اللہ میں تجھ سے (گھر میں) داخل ہونے اور نکلنے کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں, اللہ کے نام کے ساتھ ہم (گھر میں ) داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتھ نکلے , اور اپنے پروردگار پرہم نے توکل کیا ''پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے. (سنن ابو داؤد ج/4ص325,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ,دیکھئے :الکلم الطیب حاشیہ نمبر4)([1])

    2- اہل خانہ سے سلا م کرنا

    امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مستحب یہ ہے کہ (آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت )بسم اللہ پڑھے اور بکثرت ذکر الہی کرے ,اور سلام کرے چاہے گھر میں آدمی ہوں یا نہ ہوں ,کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

    ﴿فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ﴾[النّور:61]

    ''جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کروجو اللہ کی جانب سے مبارک اور پاکیزہ سلام ہے ''۔

    حضرت انس رضی اللہ عنہ كا بيان ہے کہ رسول ﷺنے (ان سے )کہا :

    (يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُنْ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ) قَالَ أَبُو عِيسَي:(هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ)

    ''اے میرے بیٹے جب اپنے اہل کے پاس جاؤتو انہیں سلام کرو جو تم پر اور اہل خانہ پر برکت کا سبب ہوگا ''۔(سنن ترمذی ,ج 4ص161,امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے ).

    حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا :

    ''تین اشخاص ایسے ہیں جو اللہ تعالىٰ کی ضمانت میں ہیں

    (1) وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے تو وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یہاں تک کہ فوت ہو جائے ,اللہ تعالى ٰاسے جنت میں داخل کرے,یا اجروغنیمت کے ساتھ لوٹادے ۔

    (2)وہ شخص جو گھر سے مسجد جانے کے لئے نکلے وہ بھی اللہ تعالىٰ کی ضمانت میں ہے یہاں تک کہ فوت ہوجائے اللہ تعالىٰ اسے جنت میں داخل کرے یا اجروثواب کے سا تھ لو ٹا دے ۔

    (3)وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کرکے داخل ہو تو وہ اللہ کی ضمانت میں ہے ۔

    (امام ابوداؤد نے اس حدیث کو حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ نوویؒ نے اذکار میں بیان کیا ہے).

    امام نووی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ضامن علی اللہ کا مفہوم ہے ضمانت والا, گارنٹی پانےوالا , اورضمان کہتے ہیں کسی چیز کی حفاظت ونگرانی کرنے کو ,تو گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ہے . اور اس سے بہتر انعام اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں رہے .

    3- کھاتے اور پیتے وقت اللہ کا ذکر کرنا

    حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ''جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تے وقت اور کھاتے وقت اللہ کا نا م لیتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے)کہتا ہے ,کہ تمہارے لئے یہاں شب بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ کھانا ہے, اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا, تو شیطان (اپنے ساتھی شیطانوں سے )کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنےکی جگہ پالی , اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے شب بسر کرنے اور کھانا کھانے کی جگہ پالی۔'' (صحیح مسلم )

    میرے بھائیو!

    آپ نے دیکھا کہ اللہ کا ذکر شیطان کو کس طرح گھر سے بھگا دیتا ہے ,پھر وہ آپ کے ساتھ کھانے پینے اور سونے میں شریک نہیں ہوتا ,اورکس طرح ذکرالہی سے غفلت شیطان کو قیمتی فرصت مہیا کرتی ہے کہ وہ اپنا ٹھکانہ اورکھانے پینے کا انتظام آپ کے پاس کرلیتا ہے , اور اس میں وہ تنہا نہیں ہوتا ,بلکہ اسکے ساتھ شیطانوں کی ایک ٹولی ہوتی ہے ,پھر یہ ٹولی گھر میں رہ کرانڈے بچے دیتی ہے .

    اس لئے اے مسلمان بھائیو!غفلت سے بچئے اورذکرالہی کو لازم جانئے, کیوں کہ ذکر الہی مضبوط رسی اور بہترین راستہ ہے .

    4- گھر میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا

    اور یہ اس لئے کہ قرآن گھر کو خوشبو داراور پاک و صاف رکھتا ہے ,اور شیطان کو گھر سے نکال بھگاتا ہے, چنانچہ حضرت ابو موسىٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

    ''قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنگترے (نارنجی) جیسی ہے کہ اسکا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ, اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے, کہ اسکا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ,اورقرآن پڑھنے والے منافق کی مثال گل ریحان کی سی ہے کہ اس کی خوشبو عمدہ ہوتی ہے مگر ذائقہ کڑوا ہوتا ہے , اورقرآن نہ پڑھنے والےمنافق کی مثال اندرائن (کے پھل) جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی ''۔ ( صحیح بخاری ومسلم)

    اسی طرح گھر میں خشوع وخضوع کے ساتھ قرآن پڑھنے سےفرشتے گھر کے قریب آتے ہیں ,چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے کھلیان (کھجور جمع کرنے کی جگہ) میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کی گھوڑی بدکنے لگی (وہ خاموش ہوگئے تو پھر وہ گھوڑی ٹہرگئی ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھروہ گھوڑی بدکنے لگی (اس کے بعد پھر وہ پڑھنے سے رک گئے ) پھر وہ پڑھنے لگے تو پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی ,حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ڈر گیا کہ کہیں گھوڑی (میرے بچے ) کو کچل نہ ڈالے , پھر میں اس گھوڑی کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائبان سا میرے سر پر ہے ,اور اس میں چراغ جیسی روشنی ہے ,پھر وہ روشنی فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میں نے پھر اس کو نہیں دیکھا ,میں رسول ﷺکی خدمت میں صبح کو حاضر ہوا, اور عرض کیا یارسول اللہ! گزشتہ رات میں اپنےکھلیان میں قرآن پڑہ رہا تھا کہ میری گھوڑی بدکنے لگی ,تورسول ﷺنے فرمایا: اے ابن حضیر! پڑھتے رہو, ابن حضیر کا بیان ہے کہ پھر میں پڑھنے لگا ,پھر وہ گھوڑی بدکنے لگی , پھر رسول ﷺنے فرمایا :اے ابن حضیر!پڑھتے رہو ,ابن حضیر کہنے لگے کہ میں ہی رک گیا ,کیونکہ یحیٰ گھوڑی کے پاس تھا ,میں ڈرا کہ کہیں یحیٰ کو کچل نہ ڈالے ,چنانچہ مین نے ایک سائبان سا دیکھا جس میں چراغ جیسی روشنی تھی ,پھر وہ فضا میں بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ,تب رسول ﷺنے فرمایا :

    ''يہ فرشتےتھے جوتمہاری قراءت سن رہے تھے اگر تم پڑھتے پڑھتے صبح کردیتے تو لوگ ان فرشتوں کو دیکھ لیتے اور وہ ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتے ۔''

    5- گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا

    جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے گھر میں مشکلات بڑہ گئی ہیں ,آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ,اور سرکشی وعناد پیدا ہوگئی ہے تویہ جان لیں کہ شیطان وہاں ضرور موجود ہے ,اسلئے آپ کو چاہیے کہ اسے بھگانے اور دور کرنے کی کوشش کریں ,لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسے بھاگے گا, اس سوال کا جواب آپ کو اللہ کے رسول ﷺدے رہے ہیں ,آپ نے فرمایا :

    (إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامًا وَسَنَامُ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ تُقْرَأُ خَرَجَ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي يُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ)

    ''ہرچیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپراور بالاتر ہوتی ہے )اورقرآن کی چوٹی سورۂ بقرہ ہے اور شیطان جب سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتے ہوئے سنتا ہے تو اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جہاں سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتی ہے ''۔ (امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے ,اور علامہ البانی نے اپنی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ ح/558میں اس حدیث کو حسن کہا ہے ).

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا :

    (لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ )

    ''اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(بلکہ اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے معمور رکھو)کیونکہ جس گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں شیطان نہیں آسکتا ''۔

    6- شيطانی آواز سے گھر کوپاک رکھنا

    فرمان باری تعالى ٰہے:

    ﴿وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ﴾

    ''اور ان ميں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکتا ہے بہکالے ''۔

    (سورۂ اسراء:64)

    مجاهد رحمة الله عليہ کہتے ہیں کہ: ''شیطان کی آوازگانا ہے''۔

    حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

    (لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمْ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمْ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ)

    '' البتہ ضرور میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اس کا نام بدل دیں گے 'ان کے سروں پر گلوکارائیں گائیں گی اورآلات طرب بجائے جائیں گے ,اللہ تعالىٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا , اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادیگا ''۔(سنن ابن ماجہ 2/1333,اس حدیث کی سند حسن ہے, دیکھئے :علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب (اغاثہ اللہفان )۔

    رسول ﷺنے فرمایا :(لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ )

    ''میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جوزنا ,ریشم ,شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے ''(صحیح بخاری 10/51مع الفتح)

    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :''گانا دل میں اس طر ح نفاق پیدا کرتا ھے جیسے پانی سبزہ اگاتا ہے ۔ ''

    اور یزید بن ولید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :لوگو! گانے سننے سے بچو ,کیونکہ گانا سننا شرم وحیا کو کم کردیتا ہے ,شہوت کو بڑھاتا ہے ,مروّت کو ملیا میٹ کردیتا ہے, شراب کی نیابت کرتا ہے , انسان پر ویسا ہی اثر کرتا ہے جس طرح نشہ آور چیز۔''

    امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

    گانا سننا فسق ہے ,اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے جب گانے کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :گانا سننا فاسقوں فاجروں کا کا م ہے ۔

    امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :گانا سننا ایک ناجائز فعل ہے, اوراس کا عادی احمق ہے, اور اسکی گواہی قبول نہیں کی جائے گی .

    امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :گانے سننےسے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے جو مجھے پسند نہیں ۔

    مسلمان بھائیو!

    گانے کی حرمت آپ پر واضح ہوگئی اوریہ بھی واضح ہوا کہ گانا شیطانی آواز ہے ,اور جب شیطان کسی گھر میں آواز دیتا ہے تو شیطان کا لشکرہر جگہ سے پہنچ کر اس گھر میں جمع ہوتا ہے ,پھر اس گھر میں فساد پھیلاتا ہے اور اس گھر میں رہنے والوں کے دلوں میں شقاق واختلاف ,بغض وکینہ پیدا کردیتا ہے , اور جب گھر میں گانا بجانا زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پھر شیاطین اس گھر میں اپنا گھونسلہ بنا کر اس کو اپنا مسکن بنا لیتےہیں , اس لئے مسلمان بھائیو! آپ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے گھروں کو گانے وغیرہ سے پاک وصاف رکھیں ,چاہے وہ گانا ریڈیو سے آرہا ہو, یا ٹیلی ویزن کے ذریعہ سے.

    7- گھنٹیوں سے گھر کو پاک رکھنا

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا : ( الْجَرَسُ مَزَامَيرُ الشَّيْطَانِ)

    ''گھنٹی شیطان کے باجے ہیں۔'' (صحیح مسلم ,سنن ابوداؤد)

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت ہے جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:

    (لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا كَلبٌ، أَوْجَرَسٌ)

    ''فرشتے ان مسافروں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتھ گھنٹا یا کتا ہو۔''

    (صحیح مسلم , ابوداؤد , ترمذی ,اوراما م ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے )

    فرشتے اللہ کی فوج ہیں اور وہ ہمیشہ شیطانی فوج کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں،جب رحمانی فوجیں ان سے علیحدہ ہوتی ہیں تو پھران پر شیطانی فوجیں مسلط ہوجاتی ہیں .

    لیکن گھنٹی سےمرا د وہ ممنوعہ گھنٹی ہے جو آوازکی شکل میں گرجا گھروں کے ناقوس کے مشابہ ہو ,اس سے موجودہ ٹیلی فون کی گھنٹی کا حکم مستثنىٰ ہے ,اسی طرح گھروں میں لگائی جانے والی گھنٹیاں بھی اس سے خارج ہیں , الاّ یہ کہ وہ گھنٹیاں آواز میں گرجاگھروں کے ناقوس کے مشابہ ہوں ,جس طرح وہ گھنٹی جو ایک دفعہ بجے پھر بند ہوجائے , اس طرح بجتی اوربند ہوتی رہے .

    اسی طرح ممنوعہ گھنٹی میں دیوار گھڑی کی وہ گھنٹی بھی شامل ہے جو بنڈول کے نام سے جانی جاتی ہے ,اسلئے کہ یہ آواز میں گرجا گھر کے ناقوس کے متشابہ ہوتی ہے ,اور یہاں پر ایک بات اچھی طرح جان لیں کہ موسیقی کی گھنٹی جو حرام ہے اس کی حرمت اس وجہ سے نہیں ہےکہ وہ عیسائیوں کےناقوس کے متشابہ ہے, بلکہ اس کی حرمت اس وجہ سے ہے, کہ یہ شیطانی باجے ہیں ,جس کی نشاندہی سطور بالا میں کی جا چکی ہے .

    8-صلیب[كراس نشان ] سے گھر کو پاک رکھنا

    اسلئےکہ صلیب نصارىٰ کاشعار ہے ,اورہمیں یہودونصاریٰ کی مشابہت سے روکا گیا ہے , لیکن ہائے افسوس !آج صلیبیں مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوچکی ہیں ,مسلمانوں کے جس گھر میں داخل ہوں گے صلیب آپ کو ضرور ملے گا ,جا نماز میں ,یا پردے میں یا دیوار کے نقش ونگار میں ,بلکہ یہ صلیبیں اللہ کے گھروں (مسجدوں ) میں داخل ہو چکی ہیں ,کتنی مسجدیں ہیں کہ اگر اس کے جانمازوں کے نقش ونگار کو بنظرغائر دیکھا جائے تو آپ کو صلیبیں صاف صاف نظر آئیں گی ,اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ جا نمازیں اور قالینیں عیسائی ملکوں سے درآمد کئے جاتے ہیں ,گویاکہ یہ نیا صلیبی حملہ ہے جو ہر گھر پر حملہ آور ہے , اسلئے اے مسلمان بھائیو !آپ محتاط رہیں ,اورکپڑا ,بستر ,قالین ,جانماز وغیرہ خریدتے وقت گہری نظرڈالیں ,اوریہ نہ کہیں کہ بلا تعمّد یہ صلیبیں آگئی ہیں ,کیونکہ نبی کریم ﷺجوصلیب بھی اپنے گھرمیں پاتے اس کو توڑ ڈالتے , کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺکے گھر میں عمداً صلیب لائی گئی تھی .

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

    (أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ)

    ''آپ ﷺگھر میں جب کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کی تصویر یں ہوتیں تو اس کو توڑ ڈالتے ''۔(صحیح بخاری ,سنن ابو داؤد).

    9- گھر کو تصویروں ,مجسموں اور مورتیوں سے پا ک رکھنا

    ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کو مجسموں اور مورتیوں سے پاک رکھے ,سوائے ان کے جن کا استثناء حدیث میں آیا ہوا ہے , اوروہ لڑکیوں کا گڑیا ہے ,اسی طرح تصویروں سے بھی (گھرکوپاک رکھے) بجز ان تصویروں کے جو ضرورت کے لئے ہوں جیسے پاسپورٹ , شناختی کارڈ اور سرکاری کاغذات وغیرہ .

    اس لئے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر اورمجسمے ہوں , اورجیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا کہ فرشتے جس گھر سے نکل جاتے ہیں شیطان اس گھر میں اپنا مسکن بنالیتا ہے , چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے انہوں نے ایک توشک خریدی جس میں تصویریں تھیں ,جب رسول ﷺنے اس کو دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے رہے اوراندر نہ گئے ,میں نے آپ کے چہرۂ مبارک سےناراضگی کو پہچان لیا,میں نے کہا یارسول اللہ !میں توبہ کرتی ہوں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے میرا کیا گناہ ہے؟

    آپ نے فرمایا :یہ توشک کیسی ہے ؟ میں نے کہا اس کو میں نے خریدا ہے تاکہ آپ بیٹھیں اور ٹیک لگائیں , آپ نے فرمایا: ان تصویروں کو بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائیگا اور ان سے کہا جائے گا کہ تم نے جنہیں پیدا کیا انہیں زندہ کرو ,آپ نے مزید فرمایا کہ جس گھر میں تصویرہو وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے ''۔(صحیح بخاری ومسلم )

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :

    ( لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتاً فِيهِ تَمَاثِيلُ، أوْتَصَاوِيْر)

    ''جس گھر میں مجسمے اور تصاویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے ''۔

    (صحیح مسلم )

    یہاں یہ بات بھی اچھی طرح جان لیں کہ یہ حرمت عام اور ہر قسم کی تصویروں کو شامل ہے, چاہے وہ فوٹو ہو, یا مجسم تصویر ہو , اس کا سایہ ہو یانہ ہو, یا وہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ وغیرہ سے .

    امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں کوئی فرق نہیں چاہے ان تصویروں کے سایے ہوں یانہ ہوں ,اس مسئلہ میں یہی ہمارے لئے منع کی گئی چیزوں کا خلاصہ ہے اور اسی مفہوم کو جمہور علماء صحابہ ,تابعین اور تبع تابعین اور بعد کے لوگوں نے بیان کیا ہے ,یہی سفیان ثوری ,امام مالک وامام ابو حنیفہ رحمہم اللہ وغیرہم کا مسلک ہے ,اس حرمت سے وہ تصویریں مستثنیٰ ہیں جس میں جان نہ ہو جیسے درخت ,نہریں ,کھیتیاں اور جمادات وغیرہ .

    حضرت سعید بن ابی الحسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اورکہا اے ابن عباس! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا ذریعہ معاش میرے ہاتھ کی صنعت ہے اور میں یہ تصویریں بنایا کرتا ہوں تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے رسول ﷺکو جوفرماتے ہوئے سنا ہے وہی میں تم سے بیان کرتا ہوں ,آپﷺنے فرمایا :''جوشخص دنیا میں کوئی تصویر بنائے گا اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے اندر جان ڈالے مگروہ اس میں جان نہ ڈال سکے گا ''وہ آدمی غصہ سے پھٹنے لگا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

    ''تم پر افسوس ہے اگر تم ایسا ہی کرنا چاہتے ہو, تو درخت اور بے جان چیزوں کی تصویریں بناؤ''۔(متفق علیہ روایت ہے اور لفظ بخاری کے ہیں)

    10- گھر کا کُتّوں سے پاک رکھنا

    حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا:

    ) لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتاً فِيهِ كَلْبٌ، وَلاَ صُورَةٌ)

    ''[ رحمت كے ]فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو ۔ ''(صحیح بخاری وصحیح مسلم )

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول ﷺ کے پاس ایک متعین وقت میں آنے کا وعدہ کیا , وقت گزرگیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ,اس وقت رسول ﷺکے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی, آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور فرمایا :''کہ اللہ تعالىٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں, پھر آپ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پِلاّ ( یعنی کتے کا بچّہ) آپ کی چارپائی کے نیچے دکھائی دیا , آپ نے فرمایا اے عائشہ! یہ پِلاّ اس جگہ کب آیا ؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم !مجھے علم نہیں ,آپ نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا , پھر جب جبرئیل آئے تو رسول ﷺنے فرمایا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں آپ کے انتظارمیں بیٹھا رہا لیکن آپ نہیں آئے ,تو جبرئیل نے کہا یہ کتّا جو آپ کے گھر میں تھا اسنے مجھے روک رکھا تھا, جس گھر میں کتّا اور تصویر ہو ہم وہاں داخل نہیں ہوتے ۔'' (صحیح بخاری ومسلم )

    اس حکم سے صرف شکاری, یا حفاظتی کتے مستثنىٰ ہیں بشرطیکہ کتّاکا لا نہ ہو, اس لئے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا :

    ( الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ) '' سیاہ کتا شیطان ہے ۔''

    اورسیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا :

    (عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِي النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ )

    '' تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے۔''(صحیح مسلم)

    ایک دوسری روایت جو حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے , ان کا بیان ہے کہ میں نے رسولﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

    (مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ)

    ''جو شخص مویشی یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی اور کتا پالے تواس کے ثواب میں سے روزانہ دوقیراط گھٹتے جائیں گے ۔'' (بخاری ومسلم )

    11- گھر میں نفلی نمازوں کا بکثرت اہتما م کرنا

    حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :(اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا)

    ''اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ''۔(صحیح بخاری ومسلم )

    اور یہ بات معلوم ہے کہ قبرستان ,بیابان اور ویران مقامات شیطانوں کے اڈے ہوتے ہیں ,گویا کہ آپ ﷺکا ہم سے یہ مطالبہ ہےکہ شیطانوں کو اپنے گھروں سے بگھانے کے لئے نفل نماز کا کچھ حصہ اپنے گھرمیں پڑھ لیا کریں .

    امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب اس لئے دی جارہی ہے کہ یہ کام آسان اور اس میں ریاکاری سے دوری اور اعمال کی بربادی سے بچاؤ ہے ,نیز اس وجہ سے بھی کہ اس سے گھر میں برکت کا حصول ہوتا ہے ,رحمت نازل ہوتی ہے ,فرشتے آتے ہیں اورشیطان گھر سے بھاگتا ہے ,ا.ھ.( شرح مسلم للنووی )

    ایک دوسری حدیث میں نفل نماز کی ترغیب دیتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا:

    (صَلُّواأَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ, ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ )

    '' اے لوگو! اپنےگھروں میں (نفل ) نماز پڑھو کیونکہ فرض کے علاوہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے ''۔(امام نسائی نے اس حدیث کو جید سند سے بیان کیا ہے ,دیکھئے " الترغیب والترہیب" للمنذری ,علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ,دیکھئے(صحیح الترغیب :ج 1/178)

    حضرت ابوموسىٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺنے فرمایا :

    (مَثل الْبَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ ، وَالبَيْتِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ ، مثل الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ )

    ''جس گھر میں اللہ کا ذکر ہوتا ہو اور جس گھرمیں اللہ کا ذکرنہ ہوتا ہوان کی مثال زندہ اورمردہ کی سی ہے ''۔(صحیح مسلم )

    12 -اچھی بات اورخندہ پیشانی

    آپ کویہ معلوم ہے کہ شیطان مسلم معاشرے کو تہس نہس کرنے کے لئے تدبیریں کرتا , چال چلتا اورمنصوبے بناتا ہے, اس کےمنصوبے میں مسلم خاندان کی بنیاد کو اکھاڑپھینکنا بھی شامل ہے, کیوں کہ معاشرے کی تعمیر میں یہ پہلی اینٹ ہے, جس کی وضاحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کررہی ہے , رسول ﷺنے فرمایا :

    (إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ قَالَ فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ!)

    ''ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ,پھر وہاں سے وہ اپنا لشکر (دنیا میں فساد برپا کرنے کے لئے )بھیجتا ہے , ابلیس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جوسب سے بڑا فتنہ برپا کرے،چنانچہ ان میں سے ایک (شیطان)آکر کہتا ہے کہ میں نے ایسا ایسا کیا،توابلیس کہتا ہے کہ تونے کچھ نہیں کیا،پھران میں سے ایک (دوسرا شیطان)آکر کہتا ہےکہ میں فلاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ ان دونوں میں علیحد گی پید ا کردی ,راوی کہتے ہیں کہ:ابلیس اسے اپنے قریب کرلیتا ہے اورکہتا ہے: تو بہت خوب ہے!(یعنی تونے بہت اچھاکام کیا) ''۔(صحیح مسلم )

    ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنا معاشرہ کی بنیاد کو جڑسے اکھاڑپھینکنا ہے , اوریہ ابلیس لعین کا خاص ہدف ہے ۔

    اسلئے شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے حسن سلوکی سے پیش آئے ,اور اچھی بات اختیار کرے, تاکہ شیطان اس کے اوراسکی بیوی کے درمیان فساد برپا نہ کرسکے, فرمان باری تعالى ہے:

    ﴿وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ﴾ [الإسراء:53]

    ''میرے بندوں سے کہدیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے ''۔ (سورۂ اسراء:53)

    اچھی بات دل کو خوش کردیتی ,میل جول کو برقرار رکھتی, اور میاں بیوی کے درمیان خوش بختی کو عام کرتی ہے, اوراس سکون و آرام کو ثابت کردیتی ہے جس مقصد کے لئے عورتیں مردوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں , محبت اورمودّت کےروابط اورمیاں بیوی کے درمیان ہمدردی کے رشتوں کو مضبوط بنا دیتی ہے , فرمان الہی ہے:

    ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾

    ''اوراس كی نشانيوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ, اوراسنے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ,یقیناً غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔'' (سورۂ روم:20)

    13- اہل خانہ کی حفاظت

    حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا:

    (إِذَا تَزَوَّجَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً أَوِ اشْتَرَى خَادِمًا ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ، ,(وفي رواية )ثم لْيَأْخُذْ بِنَاصِيَتِهَا وليدعُ بالبركة في المرأةِ والخَادمِ ،وَإِذَا اشْتَرَى بَعِيرًا فَلْيَأْخُذْ بِذِرْوَةِ سَنَامِهِ فَلْيَقُلْ ذَلِكَ)

    ''تم ميں سے کوئی جب کسی عورت سے شادی کرے, یا کوئی غلام خریدے, تو یہ دعا کرے (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ)

    ''اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا , اورتجھ سے اس کی برائی ,اوراس چیز کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس پر تونے اس کو پیدا کیا '' (سنن ابی داؤد ,علامہ البانی رحمۃ اللہ نے الکلم الطیب کی تخریج میں اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے)

    ایک دوسری روایت میں ہے:'' اس کی پیشانی پکڑے, اوربیوی اورخادم کے بارے میں برکت کی دعا کرے , اور جب اونٹ خریدے تو اس کی کوہان کی چوٹی کو پکڑ کراوپر کی دعا پڑھے .

    اور دولہا کو چاہئے کہ شب زفاف میں اپنی بیوی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے ایسا کرنے سے دونوں کی ازدواجی زندگی ہر نا پسند یدہ چیز سے محفوظ رہے گی .

    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کا بیان ہے کہ''جب تمہاری بیوی تمہارے پاس آئے تو تم اسے کہو, کہ وہ تمہارے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے, اور یہ دعا کرو(اللَّهُمَّ ، بَارِكْ لِي فِي أَهْلِي ، وبَارِكْ لَهُمْ فِيَّ ، اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي مِنْهُمْ ، وارْزُقْهُمْ مِنِّي ، اللَّهُمَّ ، اجْمَعْ بَيْنَنَا مَا جَمَعْتَ إِلَى خَيْرٍ ، وفَرِّقْ بَيْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَى خَيْرٍ )

    ''اے اللہ 1میرے لئے میرے اہل میں برکت عطا فرما . اور ان کے لئے مجھ میں برکت عطا فرما , اے اللہ!جب تک ہمیں اکھٹا رکھے خیر پر اکھٹا رکھ, اورجب ہمارے اندر جدائی ہو تو خیر ہی پر جدائی کر ۔''

    (طبرانی ,علامع البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اثرکوحسن کہا ہے )

    14-اولا د کی شیطان سے حفاظت

    مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہمبستری کی دعاؤں کا اہتمام کرے , ایسا کرنے سے بچہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہے گا , حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:

    (لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ ،اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ ،وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقضى بَيْنهُمَا وَلَدٌ، لَمْ يَضُرُّه الشَيْطَانُ أَبَدًا)

    ''اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے :

    (بِسْمِ اللَّهِ ،اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ ،وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا)

    ''اے اللہ !تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ, اور تو ہمیں جو اولاد عطا کر اسے بھی شیطان سے بچانا '' تو ان کے یہاں جو بچہ پیدا ہوگا شیطان اسے کبھی ضرر نہیں پہنچا سکے گا ''۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم )

    اذان سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے مسلمان کو چا ہئے کہ بچے کی ولادت کے وقت نو مولود کے کان میں اذان دے , حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو جنم دیا تو رسول ﷺ نے ان کے کان میں اذان کہی''(سنن ابوداؤد ,ترمذی ,اورامام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے )([2] )

    15-اولاد کا زہریلے جانوروں[سانپ ,بچھو] اور حسد سےبچاؤ

    صبح وشام کے وقت اپنی اولا د کو جمع کریں, اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرکر یہ دعا پڑھیں:

    (أُعِيذُكُمْ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ،‏‏‏‏ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ)

    '' میں تمہیں اللہ کی کلمات تامہ کے ساتھ ہر شیطان, زہریلے جانوراور نظر بد سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔''

    اور یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺحضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو مذکورہ بالا دعا کے ساتھ دم کیا کرتے تھے, اورفرماتے کہ تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام اسی دعا کے ساتھ اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو دم کیا کرتے تھے۔''

    (صحیح بخاری ,سنن ترمذی )

    خاتِمَہ

    پچھلے صفحات میں شیطان سے بچنے کے پندرہ حفاظتی وسائل بیان کئے گئےہیں ,جس نے ان وسائل کو اپنا لیا تو اس نے اپنے گھر سے شیطان کو مار بھگایا ,اور رحمن کی حفاظت ونگرانی میں آگیا۔

    اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری یہ باتیں خالص اپنی رضامندی کے لئے بنائے ,مجھے اورتمام مسلمان بھائیوں کو اس سے فائدہ پہنچائے, اور دینی امور میں ہمیں بصیرت عطا فرمائے ۔

    اے اللہ !تو پاک ہے, ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لئے ہے ,میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرےسوا کوئی معبود برحق نہیں , میں تجھ ہی سے مغفرت چاہتا ہوں اورتیری جناب میں توبہ کرتا ہوں۔

    وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلى آلہ وأصحابہ أجمعین

    فہرست موضوعات

    رقم

    عنوان

    صفحہ

    1

    عرضِ ناشر

    1

    2

    مقدّمہ

    3

    3

    شیطان سے بچاؤ کے حفاظتی ذرائع:

    5

    4

    ۱۔گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا

    5

    5

    ۲۔اہل خانہ سے سلام کرنا

    6

    6

    ۳۔کھاتے اور پیتے وقت اللہ کا ذکر کرنا

    8

    7

    ۴۔گھر میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا

    9

    8

    ۵۔گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا

    11

    9

    ۶۔شیطانی آواز سے گھر کو پاک رکھنا

    13

    10

    ۷۔گھنٹیوں سے گھر کو پاک رکھنا

    16

    11

    ۸۔صلیب[کراس نشان] سے گھر کو پاک رکھنا

    18

    12

    ۹۔گھر کو تصویروں،مجسّموں اور مورتیوں سے پاک رکھنا

    19

    13

    ۱۰۔گھر کا کُتّوں سے پاک رکھنا

    22

    14

    ۱۱۔گھر میں نفلی نمازوں کا بکثرت اہتمام کرنا

    24

    15

    ۱۲۔اچھی بات اور خندہ پیشانی

    26

    16

    ۱۳۔اہل خانہ کی حفاظت

    29

    17

    ۱۴۔اولاد کی شیطان سے حفاظت

    31

    18

    ۱۵۔اولاد کا زہر یلے جانوروں[سانپ،بچّھو] اور حسد سے بچاؤ

    33

    19

    خاتمہ

    34

    20

    فہرستِ موضوعات

    36

    [1]) ) ملاحظہ: اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے پہلے صحیح کہا تھا لیکن بعد میں بعض اہل علم کی تنبیہ پر اس کی سند میں غور کرنے کے بعد اسماعیل بن عیاش کی ضعف اور شریح بن عبید حضرمی اور اورابومالک کے درمیان انقطاع ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ۔دیکھیں(الضعيفة: رقم(5842 ) [ش ۔ر]

    [2])) اس حدیث کی صحت میں نظر ہے ,پانچوں طرق سے آنے کے باوجود ضعف سے خالی نہیں (دیکھئے سلسلہ الضعیفہ للألبانی ر حمہ اللہ ) مترجم