×
نماز کى شرطیں، ارکان اور واجبات

نماز کى شرطیں، ارکان اور واجبات

تالیف: شیخ الاسلام مجدد دین امام محمد بن عبد الوہّاب رحمه الله

1115- 1206 هـ

تحقیق و اہتمام اور تخریج احادیث

ڈاکٹر سعید بن علی بن وہَف القحطانی

مؤلف شیخ الاسلام مجدد دین امام محمد بن عبد الوہّاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نماز کی نَو (۹) شرطیں ہیں:

1. مسلمان ہونا 2. عقل مند ہونا 3. سن رشد کو پہنچنا 4. وضو کرنا 5. نجاست دور کرنا 6. شرم گاہ کو چھپانا 7. وقت کا داخل ہونا 8. قبلہ رخ ہونا 9. نیت کرنا

پہلی شرط: نماز صحیح ہونے کی پہلی شرط مسلمان ہونا ہے۔ مسلمان کی ضد کافر ہے اور کافر کا عمل، چاہے کیسا بھی ہو، اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہے۔ [1]،[2]، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں، حالاں کہ وہ اپنے اوپر کفر کے گواہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال اکارت ہو گئے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔) [3]۔نیز یہ آیت کریمہ بھی اس کی دلیل ہے:(اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے، ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا۔) [4]۔

دوسری شرط [5] : عقل مند ہونا ہے۔ عقل کی ضد جنون یعنی پاگل پن ہے اور پاگل بن کا شکار شخص صحت یاب ہو جانے تک شرعی احکام کا پابند نہیں رہتا۔ اس کی دلیل یہ حدیث پاک ہے [6]:"(فرشتوں کے اعمال لکھنے کا) قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: سونے والے سے جب تک وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل پن کے شکار شخص سے جب تک وہ صحت یاب نہ ہو جائے اور بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔" [7]۔

تیسری شرط: سنّ رُشد ہے، جس کی ضد 'صغر سنی' ہے۔ اس کی حد سات سال ہے۔ اس حد کو پار کرنے کے بعد نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا [8]۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:"تم اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حُکم دو، جب وہ سات برس کے ہوجائیں اور دس برس کے ہوجائیں، تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو اور ان کے بستر الگ کردو۔" [9]۔

چوتھی شرط [10] : رفعِ حدث یعنی با وضو ہونا۔ وضو حدث کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔

وضو کى دس شرطیں ہیں1. مسلمان ہونا 2.عقل مند ہونا 3. سن رشد کو پہونچنا 4.نیت کرنا 5.وضو مکمل ہونے تک نیت باقی رکھنا[11] 6. وضو واجب کرنے والی کسی چیز کا نہ پایا جانا 7. وضو سے پہلے پانی یا ڈھیلے اور پتھر وغیرہ سے استنجا کرنا 8. پانی کا پاک اور مباح ہونا 9. جِلد تک پانی کے پہنچنے میں حائل رکاوٹ کو دور کرنا 10. ایسے شخص کے لیے نماز کا وقت داخل ہوجانا جس کی ناپاکی دائمی ہو۔[12]

جہاں تک وضو کے فرائض کی بات ہے، تو یہ کُل چھ (6) ہیں: (1) چہرے کا دھونا۔ اس میں کُلّی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی داخل ہے۔ اس کی حد لمبائی میں سر کے بال اُگنے کی جگہ سے ٹھڈی تک کا حصہ ہے اور چوڑائی میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک۔ (2) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔ (3) پورے سر کا مسح کرنا۔ اس میں دونوں کانوں کا مسح بھی شامل ہے۔ (4) دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھونا۔ (5) ترتیب کے ساتھ وضو کرنا۔ (6) ان کاموں کو تسلسل کے ساتھ کرنا[13]۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو، تو اپنے چہروں کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھوؤ۔) [14] الآية [15]۔

وضو میں ترتیب کے ضروری ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے:"تم بھی وہیں سے شروع کرو، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔" [16]۔

تسلسل کی دلیل خشکی باقی چھوڑ دینے والے صحابی کی حدیث ہے، جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا، جس کے قدم [17] میں ایک درہم کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا اور وہاں پانی نہیں پہنچا تھا۔ لہذا آپ ﷺ نے اسے [18] دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا۔[19]

وضو سے پہلے، اگر یاد رہے، تو 'بسم اللہ' کہنا واجب ہے۔ [20]

نواقض وضو آٹھ (8) ہیں: (1) سبیلین ( پاخانہ پیشاب کے راستے ) سے کسی چیز کا نکلنا۔ (2)بدن سے بالکل نجِس (ناپاک) [21] چیز کا خارج ہونا۔ (3) عقل کا زائل ہوجانا۔ (4) عورت کو شہوت کے ساتھ چھونا[22]۔ (5) ہاتھ سے شرم گاہ کو چھونا خواہ اگلی شرم گا ہو یا پچھلی[23]۔ (6) اونٹ کا گوشت کھانا۔ (7) میت کو غسل دینا[24]۔ (8) اسلام سے پھر جانا۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔)

پانچویں شرط[25]: بدن، کپڑے اور نماز کی جگہ تینوں کی نجاست کو دور کرنا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(اور آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں۔) [26]۔

چھٹی شرط: سترِ عورت : اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر قدرت کے باوجود کوئی شخص برہنہ (ننگا) ہو کر نماز پڑھے، تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ مرد کو ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ ڈھانپنا ہے۔ لونڈی کو بھی اتنا ہی حصہ ڈھانپنا ہے۔ جب کہ آزاد عورت کو چہرے کے علاوہ پورے جسم کو ڈھانپنا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔) [27]یعنی ہر نماز کے وقت۔

ساتویں شرط: نماز کا وقت ہونا۔ اس کی دلیل سنتِ رسول سے یہ حدیثِ جبریل ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی (ایک بار) اوّلِ وقت اور (دوسرى بار) آخرِ وقت میں امامت کرائی [28] اور فرمایا:"اے محمد ﷺ ! نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے" [29]۔۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان [30] بھی اس کی دلیل ہے: (یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے) [31]۔یعنی یہ نمازیں اپنے مقررہ اوقات میں فرض ہیں اور ان اوقات کی دلیل [32] اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے) [33]۔

آٹھویں شرط: قبلہ رو ہونا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:(ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں [34]۔ اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے، جس سے آپ خوش ہوجائیں۔ آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں، اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔) [35]

نویں شرط: نیت ہے اور اس کا محل دل ہے۔ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ نیت کی دلیل یہ حدیث [36] ہے: (تمام اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔) [37].

نماز کے ارکان چودہ ہیں:1- قدرت ہو تو کھڑے ہونا، 2- تکبیر تحریمہ کہنا، 3- سورہ فاتحہ پڑھنا، 4- رکوع کرنا، 5- رکوع کے بعد کھڑے ہونا، 6- سات اعضا پر سجدہ کرنا [38]، 7- اس میں اعتدال سے کام لینا 8- دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا [39]، 9- نماز کے تمام افعال کو اطمینان و سکون کے ساتھ کرنا، 10- ارکان میں ترتیب ہونا [40]، 11- آخری تشہد پڑھنا، 12- آخری تشہد کے لیے بیٹھنا، 13- نبی ﷺ پر درود پڑھنا، 14- دونوں جانب سلام پھیرنا۔

پہلا رُکن: قُدرت ہونے کی صورت میں قیام کرنا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(نمازوں کی حفاظت کرو [41] خاص طور سے بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے ہو۔) [42]

دوسرا رُکن [43] : تکبیرِ تحریمہ۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے [44] :(نماز کے اندر غیر نماز سے متعلقہ امور کو حرام کرنے والی چیز تکبیر [45] ہے اور انھیں حلال کرنے والی چیز سلام ہے۔) [46]اس کے بعد دعائے استفتاح (ثنا) پڑھیں گے۔ یہ سنت ہے اور اس میں پڑھی جانے والی دعا یہ ہے [47]:(اے اللہ! تو پاک ہے، تیری ہی تعریف ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان سب سے اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔) [48]''سبحانك اللَّهم'' کے معنی ہیں : ہم تیری جلالتِ شان کے مطابق تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ [49]''وبحمدك'' کے معنی ہیں : تیری تعریف وثنا بیان کرتے ہیں۔ ''تبارك اسمك[50]'' یعنی تیرے نام لینے سے برکت ملتی ہے۔''وتعالى جدك'' یعنی تیری عظمت بڑی بلند ہے۔ [51]''ولا إله غيرك'' یعنی تیرے سوا زمین وآسمان میں کوئی اور معبودِ برحق نہیں۔ [52]

اس بعد کہا جائے گا: ''أعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ'' (میں شیطان مردودسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔) [53]'أعُوْذُ' کے معنی ہیں: اے اللہ میں شیطان [54] سے تیری پناہ میں آتا ہوں, تیرى پناہ ڈھوںڈھتا ہوں،اور تجھ سے تحفظ طلب کرتا ہوں۔ 'الرجیم' کے معنی ہیں: دھتکارا ہوا اور اللہ کی رحمت [55] سے دور کیا ہوا۔ نہ تو وہ میری عاقبت خراب کرپائے گا، نہ میری دنیا برباد کرسکے [56]۔

ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنا بھی نماز کا ایک رکن ہے۔ جیساکہ حدیث [57] میں ہے: (اس شخص کی نماز نہیں ہوتی، جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا۔) [58] اس سورہ کا ایک نام 'ام القرآن' بھی ہے۔

''بسم الله الرحمن الرحيم'' [59]: بطورِ برکت اور استعانت (مدد طلبی) پڑھی جائے گی۔

''الحَمْدُ لله'' میں 'الحمد' کے معنی ہیں: تعریف و ستائش۔ اس میں الف لام اس لیے لایا گيا ہے، تاکہ حمد و ثنا کی ساری اصناف کو شامل کیا جا سکے۔ جہاں تک ایک خوب صورت شخص کی بات ہے، جس کی خوب صورتی میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے، تو اس کی تعریف [60] کو مدح کہا جائے گا، حمد نہیں۔

{رَبِّ العَالمَين} میں 'رب' سے مراد ہے : وہ [61] ذات جو معبود، خالق، رازق[62]، مالک, تصرف کرنے والی ہے اور ساری مخلوقات کو نعمتیں عطا کرکے پالنے والی ہے۔ [63].

{العَالَمِينَ} : اللہ کے سوا ساری چیزوں کو جہان کہتے ہیں اور وہ اُن سب کا رب ہے۔

{الرَّحْمـَنِ} :جس کی رحمت کا فیض ساری [64] مخلوقات کے لیے عام ہو۔

{الرَّحِيمِ} : جس کی رحمت صرف مممنوں کے لیے خاص ہو۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا} [65] (اور اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر بہت ہی مہربان ہے۔)

{مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} : 'یومُ الدین' سے جزا وسزا اور حساب کا دن [66] مراد ہے، جس دن ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوئے، تو اچھا بدلہ اور اگر بُرے ہوئے، تو بُرا بدلہ دیا جائے گا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :(تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے؟میں پھر (کہتا ہوں کہ) تجھے کیا معلوم کہ جزا (اور سزا) کا دن کیا ہے؟ [67](اس سے مراد وہ دن ہے) جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لیے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے۔) [68]نیز آپ ﷺ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے:"عقل مند وہ ہے، جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت [69] کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے، جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگادے اور اللہ سے آرزوئیں رکھے۔" [70]

{إِيَّاكَ نَعْبُدُ} : ہم تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ دراصل بندے اور اس کے رب کے درمیان اس بات کا عہد ہے کہ بندہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہیں کرے گا۔ [71]

{وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} : یہ بھی بندے اور اس کے رب کے بیچ اس بات کا عہد [72] ہے کہ بندہ اللہ کے سوا کسی اور سے مدد طلب نہیں کرے گا۔

{اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ} : اس میں 'اهْدِنَا' کے معنی ہیں: ہمیں بتا، ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ [73]۔ 'الصِّرَاطُ' سے مراد اسلام ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد 'رسول ﷺ' ہیں [74]۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے مراد 'قرآن' ہے۔ ویسے، یہ سارے معانی درست ہیں۔ 'المُسْتَقِيَم' کے معنی ہیں: وہ راستہ، جس میں کوئی کجی نہ ہو۔

{صِرَاطَ الذِّينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ} کے معنی ہیں: ان لوگوں کا راستہ، جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ اس کی دلیل [75] اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرماں برداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ۔ یہ بہترین رفیق ہیں۔) [76]

{غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ} (جن پر تیرا غضب نازل ہوا ہے، اُن کا راستہ نہیں) : ان سے مراد یہود ہیں، جن کے پاس علم تو تھا، لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے [77]۔ تم اللہ سے دعا مانگو کہ تمہیں ان کے راستوں سے محفوظ رکھے۔

{وَلاَ الضَّالِّينَ} (نہ ہی جو گمراہ ہوئے) : ان سے مراد نصاریٰ ہیں، جو جہالت وگمراہی میں مبتلا ہوکر اللہ کی عبادت کرتے تھے[78]۔ تم اللہ سے دعا کرو کہ تمہیں اُن کی راہ چلنے سے محفوظ رکھے۔ گمراہ لوگوں کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: (آپ کہہ دیں کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی [79] کی تمام تر کوششیں بے کار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔) [80] [81]اور آپ ﷺ کی یہ حدیث [82] بھی ان کی گمراہی کی دلیل ہے:(تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے، جیسے تیار کیا ہوا تیر کا پر دوسرے تیر کے پرکے مطابق ہوتا ہے۔ حتى كہ اگر وہ گوہ کی سوراخ ميں داخل ہوئے ہوں گے، تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے. صحابہ كرام نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اور کون؟!) اس کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [83]

نیز یہ حدیث [84] بھی اسی کی دلیل ہے:"یہود اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے تھے، نصاری بہتّر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے اور (میری) یہ امت تہتر(73) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ سارے فرقے جہنمی ہوں، سوائے ایک فرقے کے! ہم نے کہا: یا [85] رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جو میری اور میرے صحابہ کی روش [86] اور طریقے پر ہوں گے۔" [87]

نیز رکوع کرنا، رکوع سے سر اٹھانا، سات اعضا پر سجدہ کرنا, اس میں اعتدال برتنا اور دونوں سجدوں کےدرمیان جلسہ بھی نماز کے ارکان میں شامل ہیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:(اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو۔) [88] [89]اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: [90]:"مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں۔" [91] [92]اطمینان [93] کے ساتھ نماز کے تمام افعال [94] کو بجا لانا اورسارے ارکان کو ترتیب کے ساتھ انجام دینا بھی نماز کے ارکان میں داخل ہے۔ اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ ''حدیث المُسِيء'' ہے:"دریں اثنا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی [95] آیا، نماز پڑھی، پھر کھڑا ہوا [96] اور نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا [97]:تم جاؤ اور نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے۔اس نے تین بار نماز ادا کی اور پھر [98] بولا: قسم اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بناکر بھیجا ہے، اس سے [99] بہتر نماز میں نہیں جانتا! لہذا آپ مجھے سکھا دیں۔ چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس سے فرمایا [100]:جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو، تو تکبیر کہو۔ پھر جتنا قرآن پڑھ سکو، پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سر اٹھا کر اعتدال [101] کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سر اٹھاؤ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھو۔ پھر پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔" [102]آخری تشہد بھی نماز کا ایک فرض رُکن ہے [103]۔ جیساکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب ہم پر تشہد فرض نہیں تھا، تو ہم کہتے تھے: ''السَّلاَمُ عَلَى الله مِنْ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ۔'' (اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو۔ سلامتی ہو جبریل اور میکائیل پر۔) یہ دیکھ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا [104] :تم ''السَّلاَمُ عَلَى الله مِنْ [105] عِبَادِهِ'' نہ کہو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سلامتی دینے والا [106] ہے۔ اس کی جگہ پر تم یہ کہو: ''التَّحِيَّاتُ لله[107] وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ الله الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَن لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورَسُولُهُ۔'' [108] (ساری تعظیمات, تمام دعائیں, اور پاکیزہ اقوال واعمال اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -ﷺ- اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔)'تحیّات' کے معنی ہیں: تمام تر تعظیمات، چاہے وہ ملک کے اعتبار سے ہوں یا استحقاق کے اعتبارسے، اللہ [109] تعالی کے لیے ہیں۔ مثال کے طور پر جھکنے، رکوع کرنے [110] اور سجدے کرنے جیسے کام اسی کے سامنے روا ہیں۔ وہی باقی اور ہمیشہ رہنے والی ذات ہے اور سارے [111] وہ کام جن سے رب العالمین کی تعظیم مقصود ہو، وہ صرف اللہ تعالی کے لیے سزاوار ہیں۔ جس نے ان میں سے کسی بھی کام کا رخ غیر اللہ کی جانب پھیرا، وہ مشرک اور کافر [112] ہے۔ 'صلوات' کے معنی ہیں: ساری دعائیں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔ 'سارے پاکیزہ اقوال و اعمال اللہ کے لیے ہیں[113]' : اللہ تعالیٰ سراپا طیّب یعنی مکمل طور پر پاکیزہ ہے، اسے صرف پاکیزہ [114] اقوال واعمال ہی قبول ہیں۔ ''اے نبی ﷺ ! آپ پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو'' : اس کے ذریعے آپ نبی ﷺ کے لیے سلامتی، رحمت [115] اور برکت [116] کی دعا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ جو دعا آپ ﷺ کے لیے کی جارہی ہے، وہی دعا اللہ کے لیے قطعًا نہیں کی جائے گی۔ ''سلامتی [117] ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر'': اس کے ذریعے آپ اپنے آپ کی اور زمین وآسمان میں موجود ہر صالح بندے [118] کی سلامتی کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ 'سلامتی' دعا ہے اور نیکو کاروں کے لیے دعا تو کی جائے گی، لیکن انھیں اللہ کے ساتھ پکارا نہیں جائے گا۔ ''میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے [119]۔ اس کا کوئی ساجھی نہیں" [120] : اس کے ذریعہ آپ یقینی گواہی دیتے ہیں کہ زمین [121] وآسمان میں عبادت کی مستحق ذات صرف اللہ کی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ [122] آپ اللہ کے بندے ہیں۔ چنانچہ آپ کی عبادت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح آپ اللہ کے رسول ہیں، اس لیے آپ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، بلکہ آپ کی اطاعت ضروری ہے۔ آپ کو اللہ نے بندگی کے وصف سے سرفراز کیا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:(بہت بابرکت ہے وه اللہ، جس نے اپنے بندے [123] پر فرقان اتارا، تاکہ وه تمام لوگوں کے لیے آگاه کرنے واﻻ بن جائے۔) [124](اس کے بعد یہ دردو شریف پڑھیں گے:) ''اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، [وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ] [125]، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ [وعلى آل إبراهيم] [126] إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ[127]''۔ (اے اﷲ! درود (رحمت) بھیج محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے درود بھیجا ہے ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر۔ بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔) ''صلوٰۃ'' (درود) : دراصل اللہ کے ذریعہ کی جانے والی بندوں کی وہ تعریف [128] ہے، جو وہ اپنے مقرَّب فرشتوں [129] [130] کے درمیان کرتا ہے, جیسا کہ امام بخارى رحمہ اللہ نے اپنى صحیح میں ابو العالیہ سے نقل کیا ہے, کہ انہوں نے کہا: اللہ کى طرف سے صلوٰۃ (درود), بندوں کی وہ تعریف [131] ہے، جو وہ اپنے مقرَّب فرشتوں کے درمیان کرتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ''درود'' کا مطلب اللہ کی رحمت ہے۔ مگر درست پہلا قول ہے۔ "فرشتوں کى طرف سے درود'' کا مطلب استغفار طلب کرنا ہے، جب کہ ''انسانوں کے درود'' کا مطلب دعا کرنا ہے۔ نماز میں برکت کی دعا اور اس کے بعد کی دعائیں اقوال وافعال پر مبنی سنتیں ہیں۔

نماز کے واجبات آٹھ ہیں: 1. تکبیر تحریمہ کے علاوہ بقیہ ساری تکبیرات 2. رکوع میں "سبحان ربی العظیم“ کہنا 3. امام اور منفرد کا "سمع اللہ لمن حمدہ“ 4. سب کا "ربنا ولک الحمد“ کہنا 5. سجدے میں "سبحان ربی الأعلی“ کہنا 6. دونوں سجدوں کے درمیان "رب اغفرلی“ کہنا 7. پہلا تشہد 8. پہلے تشہد کے لیے بیٹھنا

چنانچہ اگر جملہ ارکان [132] میں سے کوئی رکن بھول چوک سے چھوٹ جائے یا جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے، تو اس سے نماز باطل ہوجائے گی۔ اسی طرح واجبات میں سے کوئی واجب جان بوجھ کر چھوڑنے سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے، لیکن اگر بھول چوک سے چھوٹ جائے، تو اس کی بھر پائی سجدۂ سہو کے ذریعہ ہو جائے گی [133]۔واللہ أعلم۔[وصلى الله على سيدنا محمد، وعلى آله وصحبه، وسلّم تسليماً كثيراً][134].

واللہ أعلم۔

[وصلى الله على سيدنا محمد، وعلى آله وصحبه، وسلّم تسليماً كثيراً][132].[133]



[1] پہلے اور دوسرے قلمی نسخوں میں ہے: ''اور کافر کا عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے اور نماز بھی صرف مسلمان کی مقبول ہوتی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ( "جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔ اور کافر کا عمل اس پر مار دیا جائے گا خواہ کیسا ہی عمل کرے۔''

[2]

[3]

[4]

[5] قاری کے نسخے اورجامعہ کے دوسرے نسخے میں لفظ ''شرط'' نہیں ہے۔

[6]

[7]

[8] پہلے مخطوطے میں ''ثُمّ'' (پھر) کا لفظ نہیں ہے، بلکہ صرف ''يؤمر بالصلاة'' ( انہیں نماز کا حکم دیا جائے گا) کے الفاظ ہیں۔

[9]

[10] پہلے مخطوطے میں صرف ''چوتھی'' لکھا ہے اور لفظِ ''شرط'' مذکور نہیں ہے۔ جب کہ وہ قاری کے نسخے اور جامعہ کے مطبوعہ نسخہ میں بھی لکھا ہوا ہے۔

[11] پہلے مخطوطے میں ''تَتِمَّ الطَّہارۃُ'' کے بجائے بغیر الف لام کے''تَتِمَّ طهارته'' ہے۔ جب کہ قاری اور جامعہ کے مطبوعہ نسخے میں الف لام کے ساتھ ہے۔

[12]

[13] پہلے مخطوطے میں موالات (تسلسل) کے بعد ''وواجبه التسمية مع الذكر'' کے الفاظ بھی ہیں۔

[14]

[15]

[16] امام نسائی نے اسے ''کتاب مناسک الحج''، ''القول بعد رکعتَی الطواف'' میں حدیث نمبر (2962) کے تحت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ''تمام المِنّہ'' (صفحہ 88) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام مسلم نے بھی کتاب 'الحج'، باب ''باب حجۃ النبی ﷺ'' میں حدیث نمبر (1218) کے تحت ان لفظوں میں اسے روایت کیا ہے: ''أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ'' (میں بھی وہیں سے شروع کرتا ہوں، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔)

[17] پہلے مخطوطے میں ''فی قَدَمِه'' کی بجائے ''فی رِجْلِه'' کا لفظ ہے۔

[18]

[19]

[20] پہلے قلمی نسخہ میں یہ جملہ ''والموالاة'' کے معًا بعد ہی ہے۔

[21] ''النجس'' پہلے قلمی نسخے میں یہ لفظ نہیں ہے۔

[22]

[23]

[24]

[25] پہلے قلمی نسخہ میں صرف '''الخامس'' (پانچویں) ہے۔ لفظ شرط نہیں ہے۔

[26]

[27] سورہ الأعراف، آیت: 31۔

[28] پہلے قلمی نسخہ میں ''فی آخِرہ'' کی بجائے صرف ''وآخره'' کا لفظ ہے۔

[29]

[30] ۔ یہاں پر, دوسرے قلمی نسخے میں جو شگاف ہے, ختم ہوجاتا ہے۔

[31]

[32]

[33]

[34] پہلے قلمی نسخے میں صرف {فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} موجود ہے اور باقی حصہ محذوف ہے۔ جب کہ دوسرے قلمی نسخے میں صرف {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا} الآية پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔

[35]

[36] پہلے قلمی نسخے میں ہے : ''حديث عمر، قال: قال رسول اللَّه -صلى الله عليه وسلم- :'' (حدیث عمر میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:)۔ جب کہ دوسرے قلمی نسخے میں مؤلف کہتے ہیں: ''والدليل: «إنما الأعمال بالنيات»(اس کی دلیل: ''انما الأعمال بالنیاتِ" ہے)۔

[37]

[38] پہلے اور دوسرے دونوں قلمی نسخوں میں 'الأَعْضَاءِ السَّبْعَةِ' کی بجائے 'والسجود على سبعة الأعضاء' ہے۔

[39]

[40]

[41] پہلے اور دوسرے قلمی نسخے میں صرف ''وقوموا للَّه قانتين'' ہے اور آیت کا بقیہ حصہ محذوف ہے۔

[42]

[43] دوسرے قلمی نسخے میں 'الثانی' یعنی لفظ دوسرا نہیں ہے۔

[44]

[45]

[46]

[47]

[48]

[49]

[50]

[51]

[52]

[53] دوسرے قلمی نسخے میں: ''أعوذ باللَّه من الشيطان الرجيم، المطرود، المبعد من رحمة اللَّه '' ہے۔

[54]

[55]

[56]

[57] پہلے اور دوسرے قلمی نسخے نیز جامعہ کے مطبوعہ ایڈیشن میں 'كَمَا فِي حَدِيثِ' کی بجائے 'كما في الحديث' ہے۔

[58]

[59] قاری کے نسخے اور پہلے قلمی مخطوطے میں صرف ''بسم اللَّه الرحمن الرحيم'' ہے، جب کہ دوسرے قلمی نسخے میں ''قوله: بسم اللَّه الرحمن الرحيم ' ہے۔ یعنی 'قولہ' کا اضافہ ہے۔

[60] دوسرے قلمی نسخے میں 'به' موجود نہيں ہے۔

[61] لفظِ 'ھو' (وہ) پہلے قلمی نسخے میں نہیں ہے۔

[62]

[63]

[64] جامعہ کے مطبوعہ نسخے اور دوسرے قلمی نسخے میں ''جمیع المخلوقات'' ہے۔ اسی طرح قاری کے نسخہ میں بھی یہی ہے۔ جب کہ پہلے قلمی نسخے میں ''لجمیع المخلوقات'' ہے۔

[65] سورہ الأحزاب، آیت: 43.

[66] 'یوم' کا لفظ پہلے قلمی نسخے میں نہیں ہے۔

[67]

[68]

[69]

[70]

[71] پہلے قلمی نسخے میں 'أن لا يعبد أحداً سواه' ہے، جب کہ دوسرے قلمی نسخہ میں'أن لا يستعين أحداً غيره' ہے۔

[72] پہلے قلمی نسخے میں"عهد بين العبد وربه" (بندے اور اس کے رب کے بیچ عہد ہے) اور دوسرے قلمی نسخہ میں "عهد بين العبد وبين اللَّه أن لا يستعين أحداً غيره" (بندے اور اللہ کے بیچ عہد ہے کہ وہ اُس کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرے گا) ہے۔

[73] دوسرے قلمی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں: ''اهدنا: دلنا، وأرشدنا، وثبتنا'' (ہمیں بتا، ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ)۔

[74]

[75] مؤلف کے قول: ''والدليل" سے "غير المغضوب عليهم، و'' تک دوسرے قلمی نسخے میں موجود نہیں ہے۔

[76]

[77] پہلے اور دوسرے نسخے میں ''وَلَمْ يَعْمَلُوا'' کی بجائے ''ولا عملوا به'' ہے۔

[78] دوسرے قلمی نسخے میں لفظ جلالہ 'اللَّه' ساقط ہو گیا ہے۔

[79]

[80]

[81]

[82]

[83]

[84] پہلے قلمی نسخہ میں: ''الحديث الثانی'' بغیر واو کے ہے۔

[85]

[86]

[87]

[88] سورہ الحج، آیت: 77۔

[89]

[90]

[91]

[92]

[93]

[94]

[95]

[96]

[97]

[98]

[99]

[100]

[101]

[102]

[103]

[104]

[105]

[106]

[107]

[108]

[109]

[110]

[111]

[112]

[113]

[114]

[115]

[116]

[117]

[118]

[119]

[120]

[121]

[122]

[123]

[124]

[125]

[126]

[127]

[128]

[129]

[130]

[131]

[132] دوسرے قلمی نسخے میں ''فالأرکان'' کی بجائے ''و الأركان'' ہے۔

[133]