اس مادہ کے ترجمے
Full Description
خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ کی حقیقت
تالیف:شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ
ترجمہ:عطاء الرحمن ضیاء اللہ
مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیؔ
ناشر:دفترتعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات،ربوہ۔ریاض
مملکتِ سعودی عرب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید
خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ کا موضوع بہت خطرناک ہے،جس سے اکثر مسلمان نابلد ہیں،جس کا نتیجہ ہے کہ ہم مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں،اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اس نصرت وحمایت اور تائید سے محروم ہوگئے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایاتھا،بشرطیکہ ہم اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی شریعت کی اتباع کریں،چنانچہ ارشاد فرمایا:
(وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ) ترجمہ:’’ ہم پر مومنوں کی مدد کرنا ﻻزم ہے۔‘‘ ([1])
(إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)
ترجمہ:’’ اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔‘‘ ([2])
(وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ)
ترجمہ:’’عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے۔‘‘ ([3])
(وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ)
ترجمہ: ’’‘تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو۔‘‘ ([4])
خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ کو سمجھنے میں لوگ تین گروہوں میں منقسم ہیں:
۱۔پہلا گروہ وہ ہے جنہوں نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صرف رسولﷺکوشریعت کی تعلیم دینے کے لیے واسطہ بناکربھیجا ہے،اور یہ دعویٰ کربیٹھے کہ یہ شریعت عوام کے لیے ہے، اور اسے علم ظاہرکا نام دینے لگے۔ اور اپنی عبادتوں میں اوہام وخرافات پر بھروسہ کربیٹھے اور اسے علم باطن کا نام دیا،اور اسے ’’کشف ‘‘کے نام سے موسوم کیا،جو کہ حقیقت میں ابلیسی وسوسے اور شیطانی واسطے ہیں جو اسلام کے ادنیٰ ومعمولی اصولوں کے بھی مخالف ہیں۔اس سلسلے میں ان کا نعرہ ہے:’’میرے دل نے میرے رب سے حدیث بیان کی !!‘‘
اس بارے میں وہ شریعت کے علماء کا مذاق اڑاتے ہیں،اور ان کے اندر یہ عیب نکالتے ہیں کہ وہ اپنے علم کو مردہ لوگوں سے مردہ لوگوں کے حوالے سے لیتے ہیں.. البتہ وہ لوگ علم کوبراہ راست (اللہ) حی قیوم سے لیتے ہیں! چنانچہ انہوں نے بہت سے لوگوں کوفتنہ وآزمائش میں ڈال دیا ہے اور انہیں گمراہ کردیا ہے،اور ایسی ایسی شرعی خلاف ورزیاں کی ہیں جو ان کی کتابوں میں مدون ہے جن کی وجہ سے علما نے انہیں کافر گردانا ہے اور ان کے ارتداد کے سبب ان کا خون بہانا جائز قراردیا ہے،اس لیے کہ انہوں نے نہ جانتے ہوئے یاتجاہل عارفانہ کے طور پرشریعت کے پہلے اصول کو ترک کردیا ہے،اور وہ یہ کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اس چیز کے ذریعہ کی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺپر نازل نہیں فرمایا ہے وہ لامحالہ کافر ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ:’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘ ([5])
اس طرح شیطان نے علم کی مخالفت کرکے اور اس کی روشنی کو بجھاکران کے لیے ان کے اعمال کو مزین کردیا،اور وہ تاریکیوں میں چلنے لگے،اور اپنی خواہشات وخیالات کی طرف پھر گئے جس کے ذریعہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں،جبکہ ان کی حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کی ہے:
(قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا)
ترجمہ: ’’ کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟‘‘ ([6])
یہ گروہ متعدد فرقوں اورراستوں(سلسلے)میں بٹا ہوا ہے جوصراط مستقیم سے دور ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں،وہ صراط جس پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام ہے،ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے اور جو گمراہ ہیں۔ اور یہ تمام فرقے جہنمی ہیں جیساکہ رسول ﷺ نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے:(سَتَفْتَرِقُ أُمّتي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرقةً، ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَهِيَ : مَنْ كانَ عَلى مِثلِ مَا أنا عَليهِ وأصْحَابِي)
’’عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،بہتر فرقے جہنمی ہوں گے اور ایک فرقہ جنتی ہوگا،اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس راستہ(منہج) پر قائم ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ قائم ہیں۔‘‘ ([7])
۲۔کچھ لوگوں نے اس واسطہ میں مبالغہ سے کام لیا ہے،اس کے سمجھنے میں غلطی کے شکار ہوگئے ہیں،اور اس میں وہ معنی ومفہوم داخل کردیا ہے جس کا وہ متحمل نہیں ہے،چنانچہ رسول ﷺ اور دیگر انبیا وصالحین کی ذات کو واسطے (وسیلے) بنالیے ہیں، یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کسی عمل کوقبول نہیں کرتا ہے الا یہ کہ وہ ان واسطوں کے ذریعہ اس کے پاس آئیں،تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے لیے وسیلہ اور ذریعہ ہوں۔اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے وہ اوصاف بیان کئے ہیں جسے ظالم وجابر بادشاہ بھی اپنے آپ کو متصف کروانا نہیں پسند کرتے ہیں جو اپنے دروازوں پر دربان مقر ر کئے ہوتے ہیں اور ان کے پاس بغیر واسطہ کے کوئی شخص نہیں جاسکتا !
یہ اعتقاد کیسے درست ہوسکتا ہے جبکہ اللہ سبحانہ کا فرمان ہے:
(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)
ترجمہ:’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ ([8])
یہ آیت کریمہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے واحد راستہ اس پر صحیح ایمان رکھنا،پھراس کی شریعت کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے۔
اس آیت میں عبادت کو ایمان پر مقدم کیا گیاہے تاکہ لوگوں کو عمل صالح کی خطورت اور سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور یہ کہ وہ اللہ کی رضامندی سے سرفراز ہونے اور جنت کی سعادت حاصل کرنے لیے ضروری شرط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واسطہ کا ذکر کیا ہے اور اس سے مراد فرمانبرداریاں اور نیکیاں ہیں،اور نیکیاں ہی وہ اکیلا واسطہ ہیں جو آپ کو اللہ سے قریب کرسکتی ہیں، آپ کے لیے رحمت کے دروازے کھول سکتی ہیں اور آپ کو اس کی جنت میں داخل کرسکتی ہیں:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)
’’اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راه میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔‘‘ ([9])
نیز اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں اورمغفل لوگوں کا مذاق اڑایا ہے جو اس کے نیک وصالح بندوں کو وسیلہ بناتے ہیں،حالانکہ وہ لوگ خوداس وسیلہ کے حاجتمند ہیں،یعنی طاعت وفرمانبرداری جو انہیں اللہ تعالیٰ سے قریب کردے،اور ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:(أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا)
’’ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔‘‘ ([10])
افسوس تو اس بات پر ہے کہ یہ غافل لوگ انہی واسطوں پر مکمل اعتماد وبھروسہ کربیٹھے ہیں،جس نے انہیں اس بات پر آمادہ کردیا کہ وہ نیک کاموں سے لاپرواہی کرتے ہیں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں،یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں کے زوال اور شکست وریخت کا سبب ہے جواللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول گئے ہیں یا جان بوجھ کر بھلا دئیے ہیں،جس میں وہ اپنے رسول اور تمام اولاد آدم کے سردار کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ) ’’آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا۔‘‘ ([11])
نیز نبیﷺکا اپنی لخت جگر سے یہ فرمانا: ((يَا فَاطِمَةُ ! سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا))
’’اے فاطمہ!میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو،(قیامت کے دن)اللہ کی پکڑ سے میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔‘‘ ([12])
نیز آپ ﷺ کا فرمان:’’جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے..۔‘‘ ([13])
اگر نصوص کے اندرانبیا وصالحین کی ذات سے توسل کے جائز نہ ہونے کی اس کے علاوہ اگر کوئی دلیل نہ ہوتی کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کا وسیلہ پکڑا اور نبی ﷺکی ذات کا وسیلہ نہیں پکڑا تو اس گروہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس موقع پر کتنی بہترین بات کہی ہے:’’ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے اس کے علاوہ کسی اورکے واسطہ سے کوئی چیز مانگی جائے۔ اگر اللہ تعالی ٰکی طرف کسی کی ذات کا وسیلہ پکڑنا جائز ہوتا تو قرآن وحدیث کی دعاؤں میں ان کے ذات کے توسل کا ذکر ہوتا ہے،لیکن قرآن وحدیث کے اندر ایک دعا بھی ایسی نہیں ہے جس میں کسی کی ذات کے توسل کا ذکر موجود ہو۔‘‘
۳۔کچھ مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے خالق اور مخلوق کے درمیان اس واسطہ سے یہ سمجھا ہے کہ وہ رسالت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ اور اس کی تعلیم وتربیت ہے،اور وہ اس کے شان کی بلندی اور انسانیت کو اس کی ضرورت کے حد کو پہچانتے ہیں،لہٰذا انہوں نے شریعت کو اخذکرنے اور وحی کے ذریعہ روشنی حاصل کرنے کے لیے رسولﷺ کو بڑا وسیلہ اورواسطہ بنانے میں جلدی کی ،چنانچہ وہ آپ کی سیرت اور سنت کو اسی طرح پڑھتے پڑھاتے ہیں جس طرح قرآن کو پڑھتے پڑھاتے ہیں،اس سلسلے میں ان کا شعار اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
(يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ)
’’ اے اہل کتاب! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول (ﷺ) آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں باتیں ظاہر کررہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔‘‘ ([14])
یہی وہ فرقۂ ناجیہ ہے جس کا سابقہ حدیث میں ذکر کیا گیاہے اور اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
رنج والم کی بات ہے کہ اس طائفہ کا راستہ کانٹوں اور رکاوٹوں سے بھراہواہے،اس لیے کہ صحیح اسلام اجنبی بن گیا ہے،اور مسلمانوں کی اکثریت اس سے دور ہوچکی ہے ، اور اس کی بجائے وہ بدعات وخرافات اوراوہام کے شکار ہوگئے ہیں...
یہ مصیبت بہت پرانی ہے، اور اس بارے میں مصلحین کادور بہت خطرناک ہے،عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’ہم ایک ایسے معاملہ سے نبٹ رہے ہیں جس پر صرف اللہ تعالیٰ ہی مددکرسکتا ہے،اس راہ میں بوڑھے ختم ہوچکے،بچے جوان ہوگئے اور دیہاتی ہجرت کرگئے،لوگ اسے دین سمجھتے ہیں،حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک دین نہیں ہے!‘‘
یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے،نبیﷺدین کی اجنبیت کی خبرپہلے ہی دے چکے ہیں:
(بَدَأَ الإِسْلاَمُ غَرِيباً، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيباً، فَطُوبى لِلْغُرَبَاءِ)’’اسلام کی ابتدااجنبیت کی حالت( چند اور تھوڑے لوگوں)سے ہوئی ہے،اور عنقریب وہ اسی اجنبیت کی حالت پر لوٹ آئے گا(یعنی اس کے ماننے والے تھوڑے ہوجائیں گے) تو ایسے تھوڑے لوگوں کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ ([15])
احمد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے:’’دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول! غرباء کون لوگ ہیں؟ فرمایا:قبائل میں سے کچھ تھوڑے لوگ۔‘‘ ([16])
اور ایک روایت میں ہے جسے امام ترمذی نے حسن قراردیا ہے:’’ان غرباء کے لیے خوشخبری ہے جو میری اس سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے برباد کردیا ہوگا۔‘‘ ([17])
اور مسنداحمد کی ایک صحیح روایت میں ہے:جب رسول ﷺسے غرباء کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا: ’’بہت سے برے لوگوں کی بیچ کچھ نیک وصالح لوگ ہیں،ان کی نافرمانی کرنے والے ان کی بات ماننے والوں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘
لہٰذا اس گروہ کواصلاح کے راستوں میں کام کرنا چاہئیے اور تگ ودو کرنا چاہئیے،اوراپنے ہاتھوں میں تجدید کا مشعل اٹھاناچاہئیے تاکہ مسلمان بیدار ہوں اور صحیح اسلام کی طرف لوٹ آئیں،اور تخریب پسندوں اور مخالفین سے ہمیں وہی بات کہنی چاہئے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے ساتھیوں سے کہی ہے:
(وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ)
’’آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں۔‘‘ ([18])
اب ہم آپ کے سامنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک گرانقدر رسالہ پیش کررہے ہیں،جس میں آپ نے اس واسطہ کی بہترین تشریح وتوضیح فرمائی ہے،جو اس بات کے قابل ہے کہ اسے سنہرے حروف سے لکھا جائے ،اور مسلمان اسے غوروتدبر سے پڑھیں؛تاکہ وہ اپنی نیند سے بیدار ہوں اور قوت وطاقت ، نصرت وتائید اور عظمت وبلندی کے اسباب کو اختیار کریں۔انبیاء وصالحین کی قبروں ومزاروں پر ناک رگڑنا چھوڑدیں،اور ذلت ورسوائی اور عاجزی وانکساری کے ساتھ ان کی چوکھٹ کا گردچاٹنے سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے۔
وصلى الله على سيدنا محمد معلم الخير،وعلى آله وصبحه وسلم. وآخردعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
<
محمود مہدی استانبولی (صاحب کتاب تحفۃ العروس)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّـهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ)
ترجمہ:’’ تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے برگزیده بندوں پر سلام ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وه جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں۔‘‘ ([19])
یہ رسالہ ایک ایسے مسئلہ کی وضاحت سے متعلق ہے جس کے بارے میں دو آدمیوں کے مابین مناظرہ ہوا، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے اور اللہ کے درمیان ہمارے لئے ایک واسطہ کا ہونا ضروری ہے؛ کیونکہ اس کے بغیر ہم اللہ تک رسائی نہیں حاصل کر سکتے۔
[انبیا ورسل دین کی تبلیغ کا واسطہ ہیں]
جواب: الحمد للہ رب العالمین. اگر اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ کسی ایسے واسطہ کا ہونا ضروری ہے جو ہمیں اللہ کے حکم کی تبلیغ کرے تو یہ بر حق ہے؛ کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا اور اس سے راضی وخوش ہوتا ہے، اور جس چیز کااس نے حکم دیا ہے اور جس چیز سے منع کیا ہے، اور اپنے اولیا کے لئے جو عزت وتکریم تیار کررکھا ہے اور اپنے دشمنوں سے جس عذاب کا وعدہ کیا ہے، مخلوق ان سب کا علم نہیں رکھتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ اپنے جن اسماے حسنیٰ اور عمدہ واعلی صفات کا مستحق وسزاوار ہے کہ جن کی معرفت سے عقلیں قاصر وعاجز ہیں اور اس کے مثل دیگر چیزیں، ان کی معرفت وجانکاری مخلوق کو ان رسولوں کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتی جن کو اللہ تعالی ٰنے اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے۔
پس رسولوں پر ایمان رکھنے والے اور ان کی اتباع وپیروی کرنے والے لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی قربت سے سرفراز کرتا ہے، ان کے درجات کو بلند کرتا ہے اور دنیا وآخرت میں انہیں عزت وتکریم سے نوازتاہے۔
رہے رسولوں کی مخالفت کرنے والے تو وہ لوگ ملعون ہیں اور اپنے رب سے بھٹکے ہوئے اور اوٹ میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ)
’’اے اولاد آدم !اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وہ لوگ دوزخ والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔‘‘ ([20])
اور فرمایا:
(فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًاقَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ)
’’اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی،اور ہم اسے بروز قیامت اندھاکرکے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ الہی! مجھے تو نے اندھا بناکر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا ،تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلادیا جاتا ہے ۔‘‘ ([21])
ابن عباس ؓنے فرمایا: قرآن پڑھنے والے اور اس کے اندر جو کچھ احکام ہیں ان پر عمل کرنے والے کے لئے اللہ تعالی ٰنے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ نہ ہوگا اور نہ ہی آخرت میں بدبخت (نامراد ومحروم) ہوگا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں کے بارے میں فرمایا:
(كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ)
’’جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کو ئی نہیں آیا تھا؟ وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت گمراہی میں ہی ہو۔‘‘ ([22])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ)
’’کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے، اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جوتم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔‘‘ ([23])
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ)
’’اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجاکرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈرائیں پھر جو ایمان لائے اور درستی کر لے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں ان کو عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘ ([24])
اوراللہ تعالی ٰنے فرمایا:
(إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ)
’’یقیناًہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح(علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم، اسماعیل ، اسحاق، یقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ ، ایوب ، یونس ،ہارون اور سلیمان(علیہما السلام) کی طرف۔ اور ہم نے داود(علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔ اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بہت سے رسولوں کے(حالات بیان) نہیں کیے اور موسی (علیہ السلام)سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ ہم نے انہیں رسول بنایا ہے،خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالی پر نہ رہ جائے۔‘‘ ([25])
اس مفہوم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں۔
اس پر تمام اہل ملت مسلمانوں،یہودیوں اور نصاریٰ کا اتفاق ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے مابین واسطے کو ثابت کرتے ہیں، اور وہ واسطے رسول اور پیغمبر ہیں جنہوں نے اللہ کی طرف سے اس کے حکم اور خبر کی تبلیغ کی، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ)
’’فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چن لیتا ہے۔‘‘ ([26])
اورجس شخص نے ان واسطوں کاانکار کیا وہ تمام ا ہل ملت کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے۔
وہ سورتیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مکہ میں نازل فرمائی ہیں، مثلاً سورۂ انعام اوراعراف اور (الر)،(حم) اور(طسٓ) والی سورتیں وغیرہ ، وہ دین کے اصول جیسے کہ اللہ پر، اس کے رسولوں پراور یوم آخرت پر ایمان لانے پر مشتمل ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے قصوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک وبرباد کردیا اور اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی مدد کی، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ)
’’اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صادر ہو چکا ہے کہ یقیناًوہ ہی مدد کیے جائیں گے۔ اور ہمارا ہی لشکر غالب(اور برتر) رہے گا۔‘‘ ([27])
اور فرمایا: (إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ)
’’یقیناًہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔‘‘ ([28])
چنانچہ ان واسطوں(یعنی رسولوں )کی اطاعت،پیروی اور اقتداکی جاتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ)
’’ہم نے ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔‘‘ ([29])
اور فرمایا: (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ)
اس رسول(ﷺ)کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی۔‘‘ ([30])
نیز فرمایا: (إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا۔‘‘ ([31])
اور فرمایا:
(فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)
’’سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ ([32])
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا)
’’یقیناًتمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ(موجود)ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے۔‘‘ ([33])
[رسول ﷺکسی کونفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے]
اور اگر واسطہ سے اس کی مراد یہ ہو کہ منافع کے حصول اور نقصانات کے ازالہ کے لئے واسطہ کا ہونا ضروری ہے،مثلاً بندوں کی روزی،ان کی مددو نصرت اور ہدایت ورہنمائی کے لئے ایک واسطہ کا ہونا ضروری ہے جس سے وہ ان چیزوں کا سوال کریں اور اس سلسلے میں اس کی طرف رجوع کریں، تو یہ عظیم ترین شرک میں سے ہے جس کی بناپراللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو کافر قرار دیا ہے؛ کیونکہ انہوں نے اللہ کوچھوڑ کر دوسروں کو اولیا اور سفارشی بنالیا تھاجن کے واسطے سے منافع کے حصول اور نقصانات کے ازالہ کا سوال کرتے تھے۔
لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیدے اسی کے لئے شفاعت برحق ہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ)
’’اللہ تعالی ٰکی ذات وہ ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کوچھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قائم ہوا، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟‘‘ ([34])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ)
’’اوراس قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ اللہ کے سوانہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی ہوگا۔‘‘ ([35])
اور فرمایا:
(وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ)
’’اور اس قرآن کے ذریعہ سے نصیحت بھی کرتے رہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب (اس طرح) نہ پھنس جائے کہ کوئی غیراللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی۔‘‘ ([36])
اور اللہ سبحانہ نے فرمایا:
(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔‘‘ ([37])
اور فرمایا:(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍوَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ )
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکارلو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمین میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اجازت ہوجائے۔‘‘ ([38])
سلف کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: کچھ لوگ مسیحؑ، عزیرؑ اور فرشتوں کو پکارتے تھے، تو اللہ نے ان کے سامنے یہ واضح کردیا کہ فرشتے اور انبیاء نہ تو ان سے کسی مصیبت کو دور کرسکتے ہیں اور نہ اسے بدل سکتے ہیں،اور وہ بذات خوداللہ تعالیٰ کی قربت تلاش کرتے ہیں ، اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ)
’’کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالی ٰکتاب وحکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالی ٰکو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ،بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔ اور یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کا حکم کرے، کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔‘‘ ([39])
چنانچہ اللہ سبحانہ نے اس بات کی وضاحت کردی کہ فرشتوں اور نبیوں کو رب بنانا کفر ہے۔
لہٰذاجو شخص فرشتوں اور انبیاء کو واسطہ بناکر انہیں پکارتا ہے، ان پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے اور ان سے منافع کے حصول اورنقصانات کے ازالہ کا سوال کرتا ہے،مثلاًان سے گناہوں کی بخشش،دلوں کی ہدایت، مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرنے اور فقرومحتاجگی کوختم کرنے کا سوال کرتا ہے، تواس کے کافر ہونے پرمسلمانوں کا اجماع ہے، اللہ تعالی ٰنے ارشاد فرمایا:
(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـٰهٌ مِّن دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ)
’’(مشرک لوگ)کہتے ہیں کہ رحمن اولادوالاہے(غلط ہے) اس کی ذات پاک ہے ،بلکہ وہ سب اس کے با عزت بندے ہیں۔کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کر تے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں۔ وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو وہ تو خود ہیبت الہی سے لرزاں وترساں ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں لائق عبادت ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں ،ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔‘‘ ([40])
اور فرمایا:
(لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا)
’’مسیح(علیہ السلام )کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی تنگ وعاریا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر وانکار کرے، اللہ تعالی ان سب کواکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا ۔‘‘ ([41])
اور فرمایا:
(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا)
’’ان کا قول ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاداختیارکی ہے۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے۔رحمن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔ آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں۔ ان سب کو گھیر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے۔ یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں۔‘‘ ([42])
اور فرمایا: (وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ)
’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالی کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اورنہ زمین میں،وہ پاک اور برترہے،ان لوگوں کے شرک سے۔‘‘ ([43])
اور فرمایا: (وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ)
’’اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد،جس کے لیے وہ چاہے گا اور سفارش کو پسند کرے گا۔‘‘ ([44])
اور فرمایا: (مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)
’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے۔‘‘ ([45])
اور فرمایا:
)وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ (
’’اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے توبجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور وہ اگر تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں۔‘‘ ([46])
اور فرمایا: (مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ)
’’اللہ تعالی ٰجو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے سو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ ([47])
اور فرمایا: (قُلْ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّـهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ)
’’آپ ان سے کہئیے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے، توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ ([48])
قرآن کریم میں اس معنی کی اور بہت سی آیتیں ہیں۔
[علماء انبیاے کرام کے وارث ہیں]
البتہ انبیاے کرام کے علاوہ جومشایخِ علم اوردین کے علماء ہیں،تو اگر کسی شخص نے انہیں رسولﷺ اورآپ کی امت کے درمیان اس طورپرواسطہ ثابت کیا کہ وہ لوگوں کو (اللہ کے حکم کی )تبلیغ کرتے ہیں ،انہیں تعلیم دیتے ہیں اور انہیں ادب وتہذیب سکھلاتے ہیں اور لوگ ان کی اقتدا کرتے ہیں، تو اس کا یہ عمل درست ہے ۔
یہ علماے دین اگر کسی حکم پر اجماع( اتفاق )کر لیں تو ان کا یہ اجماع قطعی حجت اور دلیل ہے(کیونکہ) یہ لوگ ضلالت وگمراہی پر اتفاق نہیں کر سکتے، اور اگر یہ کسی چیز میں اختلاف کر بیٹھیں تواسے اللہ(کی کتاب) اور اس کے رسول(کی سنت) کی طرف لوٹایا جائے گا؛ کیونکہ ان میں سے کوئی شخص علی الاطلاق (خطاؤں سے) معصوم نہیں ہے،بلکہ سول اللہ ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی جا سکتی ہے۔
اورنبی ﷺ کاارشاد ہے:((اَلْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، فإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ فَقَدْأَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ))
’’علماء، انبیاے کرام کے وارث ہیں، کیونکہ انبیاے کرام نے دینار ودرہم (سونا وچاندی) ترکہ میں نہیں چھوڑا ہے، بلکہ انہوں نے علم(دین) کی میراث چھوڑی ہے، لہٰذا جس شخص نے اس علم کو حاصل کیا اس نے(اس میراث کا)پورا پورا حصہ حاصل کرلیا۔‘‘ ([49])
جس شخص نے ان علما ومشایخ کواللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان اس طرح واسطہ ٹھہرایا۔جیسے بادشاہ اور اس کی رعایا کے درمیان دربان واسطہ ہوتے ہیں۔ کہ وہی مخلوق کی ضرورتوں کواللہ تعالیٰ کے پاس پہنچاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ انہیں کے واسطہ سے اپنے بندوں کو ہدایت دیتااور روزی بہم پہنچاتا ہے؛ چنانچہ مخلوق ان سے سوال کرتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں؛جس طرح کہ بادشاہوں کے پاس واسطہ والے(یعنی درباری وغیرہ) ان سے لوگوں کی ضرورتوں کا سوال کرتے ہیں،کیونکہ یہ درباری حضرات بادشاہ کے قریبی ہوتے ہیں، لہٰذا لوگ ادب کے مارے براہ راست بادشاہ سے سوال کرنے کے بجائے انہی دربار یوں سے سوال کرتے ہیں،یا اس لئے کہ واسطوں کے ذریعہ سوال کرناان کے لئے بذات خود بادشاہ سے سوال کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ وہ لوگ ضرورتوں کے طلب گار کی نسبت بادشاہ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں !
لہٰذا جس شخص نے انہیں مذکورہ بالا طریقے پر(اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان) واسطہ ثابت کیا، وہ کافرو مشرک ہے، اس سے توبہ کرواناوا جب ہے، اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا، یہ لوگ اللہ کی تشبیہ دینے والے ہیں، انہوں نے مخلوق کو خالق کے مشابہ قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے شریک ٹھہرایاہے۔
قرآن کریم کے اندر ایسے لوگوں کی تردید میں اتنی آیتیں ہیں کہ جس کے لئے یہ فتویٰ وسعت نہیں رکھتا۔
[مردُود واسطوں کی قسمیں]
وہ واسطے جو بادشاہوں اور لوگوں کے مابین ہوتے ہیں وہ تین وجوہ میں سے کسی ایک پر ہوتے ہیں:
۱۔ان(بادشاہوں) کولوگوں کے بعض احوال سے آگاہ کرنے کے لئے جسے وہ نہیں جانتے ہیں، اور جس شخص نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کو نہیں جانتا ہے یہاں تک کہ کچھ فرشتے یا انبیاء یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ اسے اس کی خبر دیں، تو ایسا شخص کافر ہے، بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو مخفی اور پوشیدہ چیزوں کی بھی خبر رکھتا ہے، آسمان اور زمین میں کوئی بھی چیز اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے،وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، مختلف زبانوں اور انواع واقسام کی حاجتوں اور ضرورتوں پر مشتمل آوازوں کے شور کو بھی سنتا ہے، ایک چیز کا سننا اسے دوسری چیز کے سننے سے غافل نہیں کر سکتا، اور نہ ہی سوالوں کی کثرت اسے غلطی میں ڈال سکتی ہے، اور نہ ہی وہ سوال کے اندر الحاح واصرار کرنے والوں کے الحاح واصرار سے اکتاتا ہے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بادشاہ۔معاونین کی مددکے بغیر۔ اپنی رعایا کے معاملوں کی تدبیر کرنے اور اپنے دشمنوں کا دفاع کرنے سے عاجز وبے بس ہوتاہے، لہٰذااس کی کمزوری وعاجزی کی وجہ سے اس کے لئے معاونین ومددگاروں کا ہونا ضروری ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے کمزوری کی وجہ سے کوئی معاون ومددگار اور ولی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ)
’’کہہ دیجئے ! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکارلو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔‘‘ ([50])
اور اللہ تعالی ٰنے فرمایا:
(وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا)
’’اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی حمایت کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ ۔‘‘ ([51])
عالم وجود میں جو بھی اسباب ہیں ان کا وہ خالق،رب اور مالک ہے، لہٰذا وہ اپنے ماسوا تمام چیزوں سے بے نیاز ہے اور اس کے ماسوا تمام چیزیں اس کی محتاج ہیں، برخلاف بادشاہوں کے جو اپنے مددگاروں اور معاون کاروں کے محتاج ہوتے ہیں، اور درحقیقت وہ بادشاہت کے اندر ان کے شریک و ساجھی ہوتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا اس کی بادشاہت میں کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے،بلکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلاہے اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ باشاہ کسی خارجی تحریک اوربیرونی دباؤ کے بغیر اپنی رعایا کے مفاد اور ان کے ساتھ احسان وبھلائی اور رحمت ومہربانی کابرتاؤ کرنے کا خواہاں نہیں ہوتاہے۔ لہٰذا جب بادشاہ سے ایسا شخص مخاطب ہوتا ہے جو اسے وعظ ونصیحت کرتا ہے، یا جو اسے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، بایں طور کہ بادشاہ اس سے خوف وامید رکھتا ہے، تو بادشاہ کا عزم وارادہ اپنی رعایا کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حرکت میں آتا ہے،یا تو اس لئے کہ اس کے دل میں وعظ و نصیحت کرنے والے مشیر کی بات کا اثر پیداہوتا ہے، اور یا تو اس وجہ سے کہ رہنمائی کرنے والے کی بات سے اسے رغبت(لالچ) یارہبت(ڈر) حاصل ہوتی ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز کا رب اور مالک ہے، وہ اپنے بندوں پر ماں کے اپنے بچے پر رحم کرنے سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا ہے، اور تمام چیزیں اسی کی مشیت سے وقوع پذیر ہوتی ہیں، جس چیز کو اس نے چاہا وہ ہوئی اور جس چیز کو نہیں چاہا وہ نہیں ہوئی، اسی نے بندوں کو آپس میں ایک دوسرے کے لئے نفع بخش بنایا، چنانچہ جس کے نتیجہ میں یہ اس کے ساتھ احسان وبھلائی کرتا ہے ،اس کے لئے دعا کرتا ہے اور اس کے بارے میں سفارش کرتا ہے وغیرہ، تویہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہیں، اسی نے اس محسن (احسان کرنے والے) اور دعا وسفارش کرنے والے کے دل میں احسان، دعا اور سفارش کا ارادہ اور جذبہ پیدا کیا۔ اور یہ جائز نہیں ہے کہ کائنات میں کوئی ایسا شخص ہو جو اسے اس کی مراد کی خلاف ورزی پرمجبور کرسکے، یا اسے ایسی چیز بتلائے جسے وہ نہ جانتا رہاہو،یا یہ کہ اس سے رب تعالیٰ خوف ا ور امید رکھے، اسی لئے نبیﷺنے ارشاد فرمایا:
((لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ ، وَلَكِنْ لِيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ فَإِنَّه لَا مُكْرِهَ لَهُ))
’’تم میں سے کوئی شخص یہ دعا نہ کرے: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ ( اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما) بلکہ اسے عزم کے ساتھ سوال کرنا چاہئے، کیونکہ اسے ( یعنی اللہ کو)کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ ([52])
اوروہ سفارشی جو اس کے پاس سفارش کریں گے اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)
’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔‘‘ ([53])
اور اللہ تعالی ٰنے فرمایا:(وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ)
’’وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔‘‘ ([54])
نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ)
’’کہہ دیجئے !کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکارلو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اجازت ہوجائے۔‘‘ ([55])
اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ ہر وہ شخص جسے اس(اللہ) کے سوا پکارا جاتا ہے نہ تو وہ کسی چیز کا مالک ہے اور نہ ہی اس کا اس میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی وہ مددگار ہے،اور ان کی شفاعت صرف اسی کو فائدہ دے سکتی ہے جس کے لیے اجازت ہو۔
برخلاف بادشاہوں کے کہ ان کے پاس شفاعت کرنے والا بسا اوقات با ا ختیار ہوتا ہے، کبھی کبھار بادشاہت کے اندر ان کا شریک ہوتا ہے اور کبھی کبھی توان کی بادشاہت پر ان کا معاون ومددگار بھی ہوتا ہے۔
نیز یہ لوگ بادشاہ کے پاس ان کی اجازت کے بغیر سفارش کرتے ہیں، اور بادشاہ کبھی تو ان کا حاجتمند ہونے کی وجہ سے ، کبھی تو ان سے ڈرنے کی وجہ سے اور کبھی کبھار اپنے اوپر ان کے احسان کا بدلہ اور صلہ دینے اور اس پرانہیں انعام واکرام سے نوازتے ہوئے ان کی شفاعت کوقبول کرتا ہے، یہاں تک کہ اسی وجہ سے وہ اپنی بیوی اور بچے کی سفارش بھی قبول کرتا ہے، کیونکہ وہ بیوی اور بچے کا محتاج ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کی بیوی اور بچے اس سے اعراض کرلیں تو اسے اس کے سبب نقصان پہنچے گا،نیزاپنے غلام (خادم) کی بھی سفارش قبول کرتا ہے، اگر اس کی سفارش قبول نہ کرے تو اسے خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کی اطاعت سے انکار نہ کربیٹھے،یا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔
بندوں کا آپس میں ایک دوسرے کے پاس سفارش کرناسب کے سب اسی قسم سے ہے، چنانچہ کوئی شخص کسی کی شفاعت صرف رغبت(کسی لالچ) یا رہبت(کسی ڈر) کی وجہ سے ہی قبول کرتا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نہ تو کسی سے کوئی امید رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے ڈرتا ہے اور نہ ہی کسی کا وہ محتاج ہے، بلکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز اور مستغنی ہے، اللہ تعالی ٰنے ارشاد فرمایا:
(أَلَا إِنَّ لِلَّـهِ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ)
’’یاد رکھو کہ جتنے کچھ آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں یہ سب اللہ ہی کے ہیں اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کو پکارتے ہیں وہ تو صرف وہم وگمان پیروی کررہے ہیں ،اور محض اٹکلیں لگارہے ہیں۔‘‘ ([56])
یہاں تک کہ فر مایا:
(قَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا ۗسُبْحَانَهُ ۖهُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ)
’’وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ سبحان اللہ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔‘‘ ([57])
اور مشرکین اسی جنس سے سفارشی بناتے ہیں جسے وہ سفارش شمار کرتے ہیں، اللہ تعالی ٰنے ارشادفرمایا:
(وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ)
’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عباد ت کرتے ہیں جو نہ ان کوضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالی ٰکو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ۔‘‘ ([58])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ)
’’پس قرب الہی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے گم ہوگئے، (بلکہ در اصل) یہ ان کا محض جھوٹ اور (بالکل) بہتان تھا۔‘‘ ([59])
اور مشرکوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا:
(مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ)
’’ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ( بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں۔‘‘ ([60])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ)
’’اور یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کا حکم کرے، کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔‘‘ ([61])
[صحیح اور باطل سفارش]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا)
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو، لیکن نہ تو وہ تم سے تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے ۔‘‘ ([62])
اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ اس کے ماسوا جنہیں پکارا جاتاہے وہ نہ تو تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے بدل سکتے ہیں، بلکہ وہ توخود اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوا ر ہیں ،ا س کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس کی قربت تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ سبحانہ نے اس چیز کی نفی کردی جو انہوں نے فرشتوں اور انبیا کے لئے ثابت کی تھی سوائے اس بات کے کہ وہ اللہ کی اجازت سے سفارش کر سکتے ہیں، اور شفاعت(سفارش) سے مراد دعا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کا آپس میں ایک دوسرے کے لئے دعا کرنا نفع بخش ہے،اور اللہ نے اس کا حکم بھی دیا ہے۔ لیکن دعا کرنے والے سفارشی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر دعا اور سفارش کرے، چنانچہ وہ ایسی سفارش نہیں کر سکتا جس سے اللہ تعالی ٰنے منع کیا ہے،مثلاً مشرکین کے لئے سفار ش کرنا اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا، اللہ تعالی ٰنے ارشاد فرمایا:
(مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ)
’’پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے وعدہ کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہوگئے ۔‘‘ ([63])
اور اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے بارے میں فرمایا:
)سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ)
’’ان کے حق میں آپ کا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا ۔‘‘ ([64])
ا ور صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکو مشرکوں اور منافقوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے، اور یہ خبر دی ہے کہ وہ انہیں نہیں بخشے گا، جیسا کہ اس کے اس فرمان میں ہے:
(إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ )
’’یقیناًاللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ ([65])
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
(وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ)
’’ان میں سے کوئی مرجائے توآپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار اور بے اطاعت رہے ہیں۔‘‘ ([66])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ)
’’تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کرکے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ وا قعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔‘‘ ([67])
یعنی دعا کے اندر حد سے تجاوز کر جائیں۔
دعا کے اندر حد سے تجاوزکرنے میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بندہ ایسی چیز کا سوال کرے جسے رب تعالیٰ کرنے والانہیں ہے، مثلاً وہ انبیاے کرام کے مقام ومرتبے کا سوال کرے حالانکہ وہ نبیوں میں سے نہیں ہے، یا مشرکین وغیرہ کے لئے مغفرت کا سوال کرے وغیرہ، یا ایسی چیز کا سوال کرے جس کے اندر اللہ عزوجل کی معصیت ونافرمانی ہے، مثلاً کفر، فسق وفجور اور نافرمانی کے کاموں پرمدد طلب کرنا، لہٰذا سفارش کرنے والا جسے اللہ تعالیٰ نے سفارش کی اجازت عطا کی ہے،اس کی شفاعت(سفارش) ایسی دعا کے اندر ہوگی جس کے اندرسرکشی اورحد سے تجاوز نہ ہو،اور ان میں سے اگر کسی نے ایسی دعا مانگی جو اس کے لئے درست اور زیبا نہیں ہے تو اسے اس پربرقرار نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ وہ اس بات سے معصوم ہیں کہ انہیں ایسی چیز پر برقراررکھا جائے، جیسا کہ نوح علیہ السلام نے فرمایا:
(إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ)
’’(میرے رب!) میرا بیٹا تو میرے گھروالوں میں سے ہے، یقیناًتیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے ۔‘‘ ([68])
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ)
’’اے نوح! یقیناًوہ آپ گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں، لہٰذا آپ ایساسوال نہ کیجئے جس کا آپ کو علم نہ ہو،میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہوجائیے۔ نوح نے کہا میرے پالنہار !میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا تو میں خسارہ پانے والے میں ہوجاؤں گا۔‘‘ ([69])
اور ہر دعا اور سفارش کرنے والا جو اللہ تعالیٰ سے دعا اور سفارش کرتا ہے، اس کی دعا اور سفارش اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر اور مشیت سے ہی انجام پذیر ہوتی ہے،اور اسی کی ذات ہے جو دعا اور شفاعت کو قبول کرتی ہے، اسی نے سبب اور مسبب کو پیدا کیا ہے اور دعا بھی ان جملہ اسباب میں سے ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مقدر کیا ہے۔
[اسباب کی مقدار]
اور جب بات ایسی ہے تو اسباب کی طرف توجہ کرنا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں شرک ہے،اور اسباب کواسباب تسلیم نہ کرنا ایک طرح سے عقل کے اندر کوتاہی اور کمی ہے، اور سرے سے اسباب ہی اختیارنہ کرنے سے شریعت کے اندر قدح وطعن لازم آتا ہے۔
بلکہ ضروری ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ پر توکل وبھروسہ کرے،اسی سے دعا کرے، اسی سے مانگے اوراسی کی طرف رغبت کرے،اوراللہ تعالیٰ اس کے لئے مخلوق کی دعا وغیرہ سے جو اسباب چاہتا ہے مقدر فرمادیتا ہے۔
دعا کامشروع طریقہ یہ ہے کہ اعلی شخص، ادنیٰ کے لئے اور ادنیٰ شخص، اعلیٰ کے لئے دعا کرے،چنانچہ انبیاے کرام سے دعا اور شفاعت طلب کی جاتی ہے، جیسا کہ مسلمان نبی ﷺ سے استسقاء میں سفارش طلب کرتے تھے اور آپ سے دعا کرواتے تھے،بلکہ اسی طرح آپﷺ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں نے آپ کے چچا عباس ؓ کی دعا کے ذریعہ بارش طلب کی، نیز لوگ قیامت کے دن انبیاے کرام اور محمدﷺسے شفاعت طلب کریں گے، اور آپ تمام شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں اور آپ ﷺ کو مخصوص شفاعتیں حاصل ہیں،لیکن اس کے باوجودبخاری ومسلم میں نبی ﷺسے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
((إِذَا سَمِعْتُمِ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ مرَّةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا دَرجةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ ذلك العبد فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ شفاعتي يوم القيامةِ ))
’’جب تم موذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح موذن کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا، پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو، یہ جنت کے اندر ایک درجہ(مقام ومرتبہ)ہے جو اللہ کے کسی ایک بندے ہی کے لئے مناسب ہے، اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں،لہٰذا جس نے اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا، قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ ([70])
اور آپﷺنے حضرت عمر سے جب انہوں نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا:((يَا أَخِي لا تَنْسنَي مِنْ دُعَائِكَ))
’’اے میرے بھائی ! اپنی دعا میں مجھے مت بھولنا ۔‘‘ ([71])
چنانچہ نبیﷺنے اپنی امت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ آپ کے لئے دعا کریں، لیکن یہ ان سے سوال کرنے کی قسم سے نہیں ہے،بلکہ آپ نے انہیں اس کاحکم دیاہے جس طرح کہ آپ نے انہیں دیگر طاعتوں کا حکم فرمایا ہے جس پر انہیں ثواب ملتا ہے، حالانکہ جو کچھ بھی وہ عمل کرتے ہیں اس میں ان کے اجر کے مثل آپ ﷺ کے لئے بھی اجروثواب ہے؛ کیونکہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى،كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، من غير أن يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا،وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الوزر مِثْلُ أوزار مَنْ تَبِعَهُ، من غير أن يَنْقُصُ مِنْ أوزارهم شَيْئًا))
’’جس نے ہدایت اور صحیح راہ کی دعوت دی، اس کے لئے اسی قدر اجر وثواب ہے جس قدر اس کی اتباع کرنے والوں کے لئے ہے، اور اس(داعی کے اجر) سے ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے ضلالت اور گمراہی کی طرف بلایا اس کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس پر چلنے والوں کے لئے گناہ ہے، اس سے ان کے گناہ میں کمی نہ ہوگی۔‘‘ ([72])
اورنبیﷺ امت کو ہر ہدایت اور صحیح راستے کی طرف دعوت دینے والے ہیں، لہٰذا آپﷺ کے لئے ہر اس چیز میں جس میں وہ آپ کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں ان کے مثل اجروثواب ہے۔
اسی طرح جب وہ آپﷺ پر درود پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اورآپ کو ان کے مثل اجروثواب ملتا ہے ،مزید برآں اللہ تعالی آپﷺ کے حق میں ان کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے، پس اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کا اجرو ثواب عطاکیا ہے، اور اس کی وجہ سے آپ کو جو نفع اور فائدہ حاصل ہوا وہ آپ پر اللہ کی ایک نعمت قرار پائی۔
اور صحیح حدیث میں نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ : آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ ))
’’مسلمان شخص کااپنے بھائی کے حق میں غائبانہ دعا کرنامقبول ومستجاب ہے، اس کے سرہانے ایک فرشتہ مامور ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر وبھلائی کی دعا کرتا ہے تو اس پر مامور فرشتہ کہتا ہے: آمین، اور تجھے بھی اسی کی طرح خیر وبھلائی ملے ۔‘‘ ([73])
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
((إِنَّ أَسْرَعَ الدُّعَاءِ إِجَابَةً ؛ دَعْوَةُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ))
’’سب سے جلد قبول ہونے والی دعا کسی غائب کا کسی غائب کے لئے دعا کرنا ہے۔‘‘ ([74])
معلوم ہوا کہ غیر کے لئے دعا کرنے سے داعی (دعا کرنے والا) اور مدعو( جس کے لئے دعا کی جارہی ہے) دونوں کا فائدہ ہوتا ہے،اگرچہ داعی کا مقام ومرتبہ مدعو سے کم ہو،چنانچہ مومن کی اپنے بھائی کے لئے دعاسے داعی اور مدعو دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سو جس نے اپنے بھائی سے کہا: میرے لئے دعا کیجئے اوراس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں کو فائدہ پہنچے تو وہ اور اس کا بھائی دونوں نیکی وتقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہیں، کیونکہ اس نے مسؤول کو متنبہ کیا ہے اور اسے ایسی چیز کا مشورہ دیاہے جو دونوں کے لئے سودمند ہے،اور مسؤول نے اس کام کو انجام دیا جس میں دونوں کے لئے فائدہ ہے، اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جو دوسرے کو نیکی اور تقویٰ کا حکم دیتا ہے، تو مامورکو اس کام کے کرنے پر ثواب ملتا ہے، اور حکم دینے والے کو بھی اسی کے مثل اجروثواب ملتا ہے،کیونکہ اس نے اس کی طرف دعوت دی ہے، خاص طور سے بعض دعاؤں کا بندے کو حکم دیا گیا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
’’اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی۔‘‘ ([75])
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو استغفار کا حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا)
’’اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناًیہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘ ([76])
اس آیت میں اللہ سبحانہ نے یہ بیان کیاہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور رسول ﷺبھی ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے ہیں،اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا ہے، جیساکہ آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے دعاے مغفرت کریں،اور اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو اس بات کا حکم نہیں دیا ہے کہ وہ کسی مخلوق سے کوئی ایساسوال کرے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم نہیں دیا ہے،بلکہ جس چیز کا اللہ تعالی ٰنے بندے کو واجبی یا استحبابی حکم دیا ہے اس کا بجالانا اللہ تعالیٰ کی عبادت ،اللہ تعالیٰ کی طاعت اور قربت ہے ،اور اس کے کرنے والے کے لئے بہتری وبھلائی اور اس کے اندر نیکی کی علامت ہے۔ اوراس کا اس فعل کو انجام دے لینا اس پر اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین احسان اور انعام واکرام میں سے ہے، بلکہ سب سے عظیم نعمت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایمان کی ہدایت سے سر فراز کیا۔
ایمان قول وعمل کا نام ہے جو نیکیوں اورطاعت کے ذریعہ بڑھتا رہتا ہے ، اور جتنا ہی زیادہ بندہ کار خیر کرے گا اتنا ہی اس کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اور یہی وہ حقیقی انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے:
(صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ)
’’ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔‘‘ ([77])
(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم)
’’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول(ﷺ)کی فرماں برداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے ۔‘‘ ([78])
]نعمتِ دین ودنیا]
بلکہ دین کے بغیر دنیاکی نعمتیں کیا نعمت ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں ہمارے اصحاب اور ان کے علاوہ دیگر علماء کے دو مشہورا قوال ہیں، اور تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ ایک اعتبار سے نعمت ہے، اگرچہ دوسرے اعتبار سے وہ مکمل نعمت نہیں ہے۔
البتہ دین کی نعمت جس کا طلب کرنا لائق وسزاوار ہے، وہ وہ واجب اور مستحب امور ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، چنانچہ وہی وہ خیر اور بھلائی ہے جس کاطلب کرنامسلمانوں کی اتفاق راے سے سزاوار اور مناسب ہے اور اہل سنت کے نزدیک وہی حقیقی نعمت ہے؛ کیونکہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات نے ہی کار خیر کرنے کی نعمت(توفیق) سے نوازا ہے، اور قدریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰنے اسے اس پرمحض قدرت سے نوازا ہے جو دونوں ضد کے لیے درست ہے۔(یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف کام کرنے کی قدرت عطا کی ہے،اب انسان چاہے اس سے کارخیر کرے یا شر کے کام کرے،اس میں اللہ کی توفیق کا کوئی دخل نہیں ہے،یہ قدریہ کا عقیدہ ہے۔
یہاں پر مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰنے کسی مخلوق کو اس بات کا حکم نہیں دیا ہے کہ وہ کسی مخلوق سے کوئی سوال کرے مگر صرف اس صورت میں کہ اس کے اندر اس مخلوق کے لئے کوئی مصلحت ہو، یا تووہ کوئی واجب ( مصلحت) ہو یا مستحب، کیونکہ اللہ سبحانہ بندے سے صرف اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے،پھربھلا بتلائیے کہ وہ اپنے ماسوا کو اس بات کا حکم کیسے دے سکتا ہے کہ اس سے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا مطالبہ کیا جائے؟ بلکہ اس نے بندہ پر اس بات کو حرام قرار دیا ہے کہ وہ کسی بندہ سے اس کا مال مانگے الا یہ کہ کوئی ضرورت درپیش ہو۔
اور اگر اس کا قصد وارادہ مامور کی مصلحت یا خود اپنی اور مامور دونوں کی مصلحت ہو تو اس کو اس پر ثواب ملے گا،اور اگر اس کا مقصد صرف اپنا مطلب حاصل کرنا ہومامور کے فائدے کا کوئی قصدوارادہ نہ ہو، تواس میں اس نے صرف اپنے نفس کا خیال رکھا ہے(یہ خود غرضی ہے)۔ اس طرح کے سوال کا اللہ تعالیٰ کبھی بھی حکم نہیں دیتا، بلکہ اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ مخلوق سے سوال محض ہے اس میں اس کے نفع اور مصلحت کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ تو ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کی طرف رغبت کریں،نیز ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اس کے بندوں کے ساتھ احسان وبھلائی کریں، اور اس شخص نے ان دونوں میں سے کسی بھی چیز کا قصد نہیں کیا ہے، چنانچہ اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت اور دعا یعنی نماز کا قصد کیا اور نہ ہی مخلوق کے ساتھ احسان و بھلائی یعنی زکوٰۃ کا قصد کیا،گوکہ یہ اور بات ہے کہ بندہ اس طرح کے سوال سے ہو سکتا ہے گناہگار نہ ہو، لیکن بندہ کو جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور جس چیز کی اسے اجازت (رخصت) دی گئی ہے دونوں میں فرق ہے۔
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اس حدیث میں جس میں ستر ہزار لوگوں کے بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہونے کا ذکر ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
((أَنَّهُمْ لَا يَسْتَرْقُونَ))
’’وہ لوگ رقیہ(جھاڑ پھونک) نہیں کرواتے ہیں۔‘‘
اگرچہ رقیہ(جھاڑ پھونک)کروانا جائز ہے، اوراس کا تفصیلی ذکر ہم نے دوسری جگہ کیا ہے۔
[واسطےا ورشرک]
یہا ں پر مقصودبیان یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین اسی طرح واسطہ ٹھہرایا جس طرح بادشاہوں اور رعایا کے مابین واسطے ہوتے ہیں، تو وہ مشرک ہے، بلکہ اس کا دین بت پرست مشرکین کا دین ہے جو کہا کرتے تھے کہ: یہ انبیاے کرام اور صالحین کے مجسمے ہیں، اور یہ وسائل اور ذرائع ہیں جن کے ذریعہ وہ اللہ کاتقرب حاصل کرتے ہیں، اور یہ اسی شرک کی قسم سے ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں پر نکیر فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا:
(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ)
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، و ہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔‘‘ ([79])
اور فرمایا: (وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)
’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ،ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔ اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ ([80])
یعنی جب میں انہیں امر ونہی کے ذریعہ دعوت دوں تو اس پر لبیک کہیں، اور اس بات پر ایمان رکھیں کہ میں سوال اور تضرع وگریہ وزاری کے ساتھ کی جانے والی ان کی دعاؤں کو قبول کروں گا۔
اور فرمایا: (فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب)
’’پس جب تو فارغ ہو توعبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔‘‘ ([81])
اور فرمایا:
(وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ )
’’اور جب تمہیں سمندرمیں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا وہ تمام معبود جنہیں تم پکارتے رہے تھے گم ہوجاتے ہیں۔‘‘ ([82])
اور فرمایا:
(أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ) ’’کون ہے جوبے کس کی پکار کو جب وہ پکارے، قبول کرتا ہے اور سختی کو دور کردیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔‘‘ ([83])
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ)
’’سب آسمان وزمین والے اسی سے مانگتے ہیں۔ہر روز (ہروقت)وہ ایک شان میں ہے۔‘‘ ([84])
اللہ تعالیٰ نے اس توحید کو اپنی کتاب میں بخوبی بیان کیاہے اور اپنے ساتھ شر ک کئے جانے کی جڑ وں کوبالکل کاٹ دیا ہے تاکہ کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے خوف وڈر محسوس نہ کرے،اس کے سواکسی اور سے امید وابستہ نہ رکھے اور صرف اسی پر توکل واعتماد رکھے۔
[خشیت صرف اللہ کے لیے ہوناچاہیے]
اللہ تعالی ٰنے ارشاد فرمایا:
(فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا )
’’اب تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے نہ ڈرو ، صرف میرا ڈر رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو ۔‘‘ ([85])
اور اللہ تعالی ٰنے فرمایا:
(إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ)
’’یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو(تمہیں) اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔اگر تم مومن ہو تو ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو۔‘‘ ([86])
اور فرمایا: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً )
’’کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ اداکرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالی کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔‘‘ ([87])
اور فرمایا:
(إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ)
’’اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔‘‘ ([88])
اور فرمایا:
(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّـهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ)
’’جو بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرے، اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے،وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘ ([89])
مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی ہے،البتہ خوف وخشیت صرف اللہ تعالی ٰکے لئے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ سَيُؤْتِينَا اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ)
’’اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔‘‘ ([90])
اور اسی کے مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
(الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ)
وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھادیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔‘‘ ([91])
[ رسول ﷺتوحید کی تقاضوں کو پورا کرتےہیں]
نبیﷺ اپنی امت کے لئے اس توحید کی تکمیل کرتے تھے، اور ان سے شرک کی جڑوں کو کاٹتے تھے، کیونکہ یہی ہمارے قول :لاإلہ إلا اللہ کی تحقیق وتکمیل ہے، کیونکہ الہ وہ ذات ہے جس کی دل محبت و تعظیم، اجلال و اکرام اور امید وخوف کے ساتھ بندگی کرے، یہاں تک کہ آپﷺنے صحابہ کرام سے کہا: ((لَا تَقُولُوا:مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَلَكِنْ قُولُوا : مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ ))
’’تم یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور محمد(ﷺ) چاہیں، بلکہ اس طرح کہو: جو اللہ چاہے، پھر محمد(ﷺ) چاہیں۔‘‘ ([92])
نیز ایک مرتبہ آپﷺ سے ایک آدمی نے کہا: مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ یعنی جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں، تو آپ نے فرمایا:
((أَجَعَلْتَنِي لِلهِ نِدّاً ؟!قُلْ : مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ ))
’’کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا شریک بنادیا؟ (بلکہ) یہ کہہ کہ جو صرف اللہ تعالی ٰچاہے۔‘‘ ([93])
اور فرمایا:
((مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ ))
’’جس شخص کو قسم کھانا ہو تو وہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ ([94])
اور فرمایا:
((مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ))
’’جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘ ([95])
اور ابن عباسؓ سے فرمایا:
((إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ ، جَفَّ القلمُ بما أنتَ لاقٍ، فلو جَہَدتِ الخلیقَةُ علی أن تنْفعک لم تنفعُک إلَّا بِشَيْءٍ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، ولو جَھدَتْ أن تضرُّک لم تضرُّک إِلَّا بِشَيْءٍ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ)) ’’جب تو سوال کر تو اللہ تعالیٰ سے سوال کر،اور جب مدد مانگ تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ،قلم اس چیز (کے لکھنے)سے خشک (بند)ہو چکا ہے جس سے تیرا سامنا ہونے والا ہے،پس اگر پوری مخلوق تجھے نفع پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرڈالے تو تجھے وہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی ہے سوائے اتنا جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ رکھی ہے، اور اگر تجھے نقصان پہنچانے کی تمام کوشش صرف کر ڈالے تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے لیے لکھ رکھی ہے۔‘‘ ([96])
نیز فرمایا:
((لَاتُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فقُولوا:عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ))
’’تم میری تعریف میں غلو کرکے مجھے میرے حد سے نہ بڑھاؤ جیساکہ نصاریٰ نے عیسی بن مریم ؑ کو حد سے بڑھا دیا( یہان تک کہ انہیں اللہ کا بیٹا بنا ڈالا) کیونکہ میں محض اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہوں ،لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘ ([97])
اور فرمایا: ((اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلُ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ))
’’اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بننے دینا کہ اس کی پوجا کی جائے ۔‘‘ ([98])
اور فرمایا: ((لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ )
’’میری قبر کوعید (میلا ٹھیلا)نہ بنانا،اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا کیونکہ تمہارادرود مجھ تک پہنچتا ہے تم جہاں کہیں بھی رہو۔‘‘ ([99])
اور آپ ﷺنے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:
((لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ))
’’یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیں‘‘۔ آپ ان کے کردارسے لوگوں کو ڈراتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اگر یہ خوف نہ ہوتا (کہ آپ کی قبر کو بھی مسجد بنالی جائے گی) تو آپ کی قبر بھی ظاہر رکھی جاتی،لیکن آپ نے اس کے مسجد بنائے جانے کو ناپسندکیا ۔‘‘ ([100])
یہ ایک وسیع باب ہے۔
مومن اس بات کوجانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کار ب اور مالک ہے،لیکن اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اسباب کا انکار نہیں کرسکتا، جیسا کہ اس نے بارش کو پیڑ پودوں کے اگانے کا سبب قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ)
’’اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کردیا اور اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادیا ۔‘‘ ([101])
اور جیساکہ سورج اور چاند کو اس چیز کا سبب قرار دیا جسے ان کے ذریعہ پیدا کرتا ہے، اور جس طرح کہ شفاعت اور دعا کو اس چیز کا سبب قرار دیا ہے جسے ان کے ذریعہ پورا کرتا ہے، مثلاً میت کے جنازہ پر مسلمانوں کا نماز پڑھنا، یہ ان اسباب میں سے ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میت پررحم فرماتا ہے اور اس پر نماز(جنازہ) پڑھنے والوں کو اجروثواب سے نوازتا ہے۔
[ مشروع اور غیر مشروع اسباب]
لیکن اسباب کے متعلق تین امور کا جاننا ضروری ہے:
پہلا امر: کوئی معین سبب(بذات خود) مستقل طور پر مطلوب کو نہیں حاصل کر سکتا، بلکہ اس کے ساتھ دیگر اسباب کا ہونا ضروری ہے، نیز اس کے باوجود اس کے کچھ موانع بھی ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ اسباب کی تکمیل نہ کرے اور موانع کو دور نہ کرے تو مقصود حاصل نہ ہو،اور اللہ سبحانہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اگرچہ لوگ اسے نہ چاہیں،اور جو لوگ چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا ہے الا یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ چاہے۔
دوسرا امر: اس بات کا اعتقادرکھنا جائز نہیں ہے کہ کوئی چیز بغیر علم کے سبب ہے،لہٰذا جس نے کسی چیز کو بغیر علم کے سبب ثابت کیا یا( ایسی چیز کو سبب قراردیا) جو شریعت کے مخالف ہو تو وہ (سبب)باطل ہے، مثال کے طور پر جو یہ گمان کیا جاتا ہے کہ نذرماننا بلا کے ٹالنے اور نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے سبب ہے۔
حالانکہ صحیحین میں نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے نذر ماننے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے:
((إِنَّهُ لَا يأتِي بِخَيْرٍ، وَإنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيْلِ))
’’وہ(نذر) کسی خیر وبھلائی کو جنم نہیں دیتی ہے،بلکہ اس کے ذریعہ تو محض بخیل سے(اس کے مال کو) نکلوایا جاتا ہے۔‘‘
تیسرا امر: دینی اعمال میں سے کسی بھی چیز کو سبب بنانا جائز نہیں ہے الا یہ کہ وہ مشروع ہو، کیونکہ عبادتوں کا دارومدار توقیف(اللہ اور اس کے رسول کے فرمان) پر ہے،لہٰذا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک اور ساجھی ٹھہرائے اور غیر اللہ کو پکارنے لگے ،اگرچہ اس کاگمان یہ ہو کہ یہ عمل اس کے بعض اغراض ومقاصد کے حصول کا سبب ہے۔
اسی لئے شریعت کی مخالف بدعتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اگرچہ اس کے بارے میں اس کا ظن وگمان ہو۔کیونکہ شیاطین کبھی کبھی مشرک آدمی کی بھی اس کے بعض اغراض ومقاصد کے حصول میں مدد کرتے ہیں۔
اور کبھی کبھارکفر، فسق وفجور اور نافرمانی سے بھی انسان کے بعض اغراض ومقاصد حاصل ہوجاتے ہیں،لیکن اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی خرابی اور برائی ، اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی مصلحت سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ رسولﷺکی بعثت مصالح کی تحصیل اور تکمیل کے لئے اور مفاسد کے ازالہ اور اسے کم کرنے کے لئے ہوئی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس کی مصلحت غالب اورزیادہ ہے، اور جس چیز سے منع فرمایا ہے اس کا نقصان اور برائی زیادہ اور غالب ہے، اور ان جملوں کی تفصیل ہے جس کے لئے یہ چند اوراق کافی نہیں ہیں۔([102])
واللہ أعلم۔
والحمد للہ وحدہ، وصلی اللہ تعالی علی سیدنامحمد وآلہ وسلم ،
([1]) [الروم: ۴۷]
([2]) [محمد:۷]
([3]) [المنافقون:۸]
([4]) [آل عمران:۱۳۹]
([5]) [النساء:۶۵]
([6]) [الکہف:۱۰۳۔۱۰۵ ]َ
([7]) (ابوداود،ترمذی وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
([8]) [البقرۃ:۱۸۶]
([9]) [المائدۃ:۳۵]
([10]) [الاسراء:۵۷]
([11]) [الاعراف:۱۸۸]
([12]) (بخاری ومسلم)
([13]) (مسلم)
([14]) [المائدۃ:۱۵۔۱۶]
([15]) اس حدیث کو امام مسلم نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے
([16]) اس حدیث کا تذکرہ محمود مہدی حفظہ اللہ کے تحقیق کردہ نسخہ میں نہیں ہے۔واللہ اعلم۔
([17]) اس حدیث کا تذکرہ محمود مہدی حفظہ اللہ کے تحقیق کردہ نسخہ میں نہیں ہے۔واللہ اعلم۔ محمودمہدی استنبالوی حفظہ اللہ کے نسخہ میں ہے: (طوبی للغرباء الذین یصلحون إذا فسد الناس) یعنی ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو لوگوں کے بگڑجانے کے وقت ان کی اصلاح کریں گے‘‘۔(اسے ابوعمروالدانی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے) ش۔ر
([18]) [ابراہیم:۱۲]
([19]) [النمل:۵۹]
([20]) [الاعراف:۳۵۔۳۶]
([21]) [طہ: ۱۲۳۔۱۲۶]
([22]) [الملک:۸۔۹]
([23]) [ الزمر:۷۱]
([24]) [الانعام:۴۸۔۴۹]
([25]) [النساء:۱۶۳۔۱۶۵]
([26]) [ الحج:۷۵]
([27]) [الصافات:۱۷۱۔۱۷۳]
([28]) [المؤمنو ن (غافر) :۵۱]
([29]) [ النساء:۶۴]
([30]) [النساء:۸۰]
([31]) [آل عمران:۳۱]
([32]) [الاعراف:۱۵۷]
([33]) [الاحزاب:۲۱]
([34]) [ السجدۃ:۴]
([35]) [الانعام:۵۱]
([36]) [الانعام:۷۰]
([37]) [الاسراء:۵۶،۵۷]
([38]) [ سبا: ۲۲۔۲۳]
([39]) [آل عمران: ۷۹،۸۰]
([40]) [الانبیاء : ۲۶ ۔۲۹]
([41]) [النساء:۱۷۲]
([42]) [مریم: ۸۸۔۹۵]
([43]) [یونس: ۱۸]
([44]) [النجم:۲۶]
([45]) [البقرۃ:۲۵۵]
([46]) [یونس:۱۰۷]
([47]) [فاطر:۲]
([48]) [الزمر:۳۸]
([49]) (ابوداود اورترمذی نے روایت کیا ہے،اوریہ حدیث شواہد کی بنا پر حسن ہے)
([50]) [سبا:۲۲]
([51]) [ا لاسراء :۱۱۱]
([52]) (متفق علیہ)
([53]) [البقرۃ:۲۵۵]
([54]) [الانبیاء:۲۸]
([55]) [سبا:۲۲،۲۳]
([56]) [یونس:۶۶]
([57]) [یونس:۶۸]
([58]) [یونس:۱۸]
([59]) [الاحقاف:۲۸]
([60]) [الزمر:۳]
([61]) [آل عمران:۸۰]
([62]) [الاسراء : ۵۶، ۵۷]
([63]) [التوبۃ:۱۱۳۔۱۱۴]
([64]) [المنافقون:۶]
([65]) [النساء:۴۸]
([66]) [التوبۃ:۸۴]
([67]) [الأعراف:۵۵]
([68]) [ھود:۴۵]
([69]) [ھود:۴۶،۴۷]
([70]) (بخاری ومسلم)
([71]) (اسے احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے، اوراس میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہیں) ،(اورابوداود میں ہے لا تنسنا یاأخی من دعائک) میرے بھائی مجھے اپنے دعا میں یاد رکھنا‘‘۔
([72]) (مسلم)
([73]) (مسلم)
([74]) (اسے ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اوراس میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہے)
([75]) [محمد:۱۹]
([76]) [النساء:۶۴]
([77]) [الفاتحۃ:۷]
([78]) [النساء :۶۹]
([79]) [التوبۃ:۳۱]
([80]) [البقرۃ:۱۸۶]
([81]) [الانشراح:۷،۸]
([82]) [الاسراء:۶۷]
([83]) [ النمل:۶۲]
([84]) [ الرحمن:۲۹]
([85]) [المائدہ:۴۴]
([86]) [آل عمران:۱۷۵]
([87]) [النساء:۷۷]
([88]) [ التوبۃ:۱۸]
([89]) [النور:۵۲]
([90]) [التوبۃ:۵۹]
([91]) [آل عمران:۱۷۳]
([92]) (صحیح ہے،اسے احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے)
([93]) (اسے احمد نے حسن سند سے روایت کیا ہے)
([94]) (بخاری ومسلم)
([95]) (صحیح ہے اسے احمد نے مسند میں روایت کیا ہے )
([96]) ( اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح کہا ہے)
([97]) (بخاری)
([98]) (احمد نے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
([99]) (ابوداود نے حسن سند سے روایت کیا ہے)
([100]) (متفق علیہ)
([101]) [البقرۃ:۱۶۴]
([102]) (دیکھئیے:مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ: ج۱،ص۱۲۱)